• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ چکوال کی ایک سانولی دوپہر تھی۔ نگاہوں کے سامنے وہ خوبصورت عمارت تھی جسے نیت کے خلوص سے تعمیر کیا گیا تھا۔ عمارت کے ساتھ شامیانے لگا کر تقریب سجائی گئی تھی مگر مجھے وہ منظر بارہا یاد آتا رہا کہ ابھی دو برس پہلے میں اور مرتضیٰ اقبال کالج کے دنوں کے دوست راجہ عظیم کے پاس گئے۔ وہ ہمیں چکوال میں اسی زمین پر لائے تھے اور کہا تھا کہ ’’یہ ساڑھے چار سو کنال اراضی ہے۔ ہم اس پر ایک ایسا ایجوکیشنل کمپلیکس بنا رہے ہیں جہاں غریب پاکستانیوں کے بچے بہتر تعلیم حاصل کرسکیں۔‘‘ راجہ عظیم کہیں کھو گئے اور پھر اسی کھوئی ہوئی حالت میں آنکھوں سے اترتے ہوئے موتیوں کے ساتھ بولے ’’ہمارے وطن میں کتنے یتیم بچے ہیں، کتنے غریب بچے ہیں جوبہترین تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ کیا ان کا کوئی حق نہیں۔ فیسوں کی بھرمار میں غریب کہاں پڑھ سکتے ہیں۔ ہمارے چکوال میں شہدا کی خاصی تعداد ہے۔ ہم ان کے بچوں پر بہترین تعلیم کے دروازے کھولنا چاہتے ہیں۔ اس ساڑھے چار سو کنال اراضی پر ہماری والدہ کے نام پر دانش گاہ قائم ہوجائے گی۔ ہم یہ سب کام حسین خاتون ٹرسٹ کے نام سے کریں گے۔ اس عمارت کا نقشہ بہترین نقشہ گیروں نے بنایا ہے۔ اس میں قائم مسجد حسین کی عمارت سے مسافت ِ امت ِ مسلمہ کی جھلک نظر آئے گی۔ اس کے نقشے میں چین، افریقہ اور عرب و ایران نظر آئیں گے‘‘ دو برس پہلے اس بیانیے کے بعد وہ ہمیں کھانے پر لے گئے۔ ان کے والد گرامی سے ملاقات ہوئی۔ پھر ایک روز کسی شام میں نے راجہ عظیم سے ناجانے کیوں چھپی ہوئی بات کہہ دی کہ تمہارے والد کے ہاتھوں سے ولایت کی خوشبو آتی ہے۔ کہیں وہ ولایت انگلستان نہ سمجھ لینا بلکہ یہ سمجھنا کہ تمہارے والد کے ہاتھوں سے جو خوشبو آتی ہے وہ ولیوں کے ہاتھوں سے آتی ہے۔

دو برس پہلے کا قصہ تمام ہوا۔ آج کی بات کرتے ہیں۔ دو روز پہلے ہونے والی تقریب کی بات کرتے ہیں۔ کیا عجیب تقریب تھی جس میں عزم بھی تھا، دلسوز کہانیوں کے قصے بھی ایستادہ تھے، لفظوں کی جادوگری بھی تھی، یادوں کے جھروکے بھی تھے، ہمت کی داستانیں بھی تھیں، تقریروں کی سحرانگیزی بھی تھی، دلوںجو مسحور کرنے والے لوگ بھی تھے۔ کیا اہل سیاست، کیا اہل دانش اور کیا دل فگار چراغوں کی لو۔ یہیں پرانے دوستوں سردار غلام عباس، ملک سلیم اقبال اورسعید قاضی سے ملاقات بھی ہوگئی۔ سعید قاضی ہمیشہ ہی سے ایسے ہیں ان کی باتوں سے خوشبو بہاروں سمیت لپٹی ہوتی ہے۔ ان کے شاگرد غلام مرتضیٰ نے نظامت خوب نبھائی۔ یہ تقریب حسین خاتون ٹرسٹ اور اخوت کے ملاپ کے نام تھی۔ تقریب میں پورے پاکستان کے مختلف حصوں سے وہ بچے شریک تھے جو یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اسٹیج پر جلوہ افروز تمام افراد کے حصے میں تقریر کرنا تو نہ آیا مگر یہ بتا دیا گیا کہ یہ نمایاں افراد ہیں۔ اپنے زمرد خان، راجہ جاوید اشرف اور سلیم رانجھا سمیت چند اور افراد لیکن جو شاندار اور سحرانگیز تقریر اخوت کے ڈاکٹرامجد ثاقب نے کی، اس نے دلوں کو اپنے حصار میں لے لیا۔ ایسے محو کیا کہ مست ہو کے رہ گئے۔ ایک ایک جملے میں دلسوز کہانیوں کا بیان، ڈاکٹر امجد ثاقب کو بھی تقریر کرنے پر کیا ملکہ حاصل ہے۔ اس کا کھلا اعتراف مہمان خصوصی سابق وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے کیا۔ راجہ صاحب اپنی تقریر میں کہنے لگے ’’زندگی میں بے شمار تقریریں کی ہیں۔ بے شمار سنی بھی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر امجد ثاقب کی سحرانگیز تقریر دل پر نقش ہوگئی ہے۔‘‘ راجہ پرویز اشرف بھی کمال کے سیاستدان ہیں۔ پنجابی، پوٹھوہاری، سندھی، اردو اور انگریزی سب زبانوں میں تقریریں کر گزرتے ہیں۔ جب پیپلزپارٹی سوائے سندھ کے سب جگہوں سے ہار رہی تھی راجہ پرویز اشرف جیت رہے تھے۔ جیت تو راجہ خرم پرویز بھی گئے تھے مگر الیکشن کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں جیت کے راستے میں ہار کا آئینہ دکھا دیا جاتا ہے۔

زبانوں سے مجھے کوہاٹ کی ہلال بنگش باد آگئی ہے۔ پشتو، دری، اردو، فارسی اور انگریزی ایسی روانی سےبولتی ہیں جیسے سب زبانیں اپنی ہوں۔ اندرون ملک اور بیرون ملک زندگی کے کئی شعبوں میں خدمات انجام دینے والی ہلال بنگش کوہاٹ کی عورتوں کے لئے رول ماڈل بن چکی ہیں۔حکومت پاکستان کو ایسی عورتوں کی خدمات لینی چاہئیں تاکہ تعمیر پاکستان میں عورتوںکا کردار بھرپور ہو۔ انسان تو کچھ سالوں بعد خاک کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کا کردار زندہ رہتا ہے۔ زندگی میں اعلیٰ کردار ادا کرنا چاہئے۔

چکوال کی وسیع و عریض دانش گاہ کردار کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ جب تقریب شروع ہوئی تھی تو سانولی دوپہر تھی اور جب راجہ نذرحسین کی آنسوئوں بھری دعائوں سے تقریب اختتامی لمحات میںداخل ہوئی تو چکوا ل کے آنگن میں سرمئی شام کا منظر تھا۔ ایسے کام دریا دلی کی گواہی دیتے ہیں۔ جب تک دریا دلی کے یہ کردارموجود ہیں اس وقت تک سماج کوپریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ بقول نوشی گیلانی؎

زمانے والوں سے چھپ کے رونے کے دن نہیں ہیں

اسے یہ کہنا اداس ہونے کے دن نہیں ہیں

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین