کسی بھی ملک و قوم کی تر قی کے چار بنیادی ستون ہوتے ہیں 1۔اعلیٰ ومعیاری تعلیم 2۔سائنس و ٹیکنالوجی 3۔ کاروبار میں جدّت طرازی 4۔ ایک مربوط انتظامی نظام جس میں انفرادی صلاحیت کو ترجیح دی جائے اور فوری انصاف فراہم کیا جائے ۔ پاکستان اپنی GDP کا صرف 2فیصد حصّہ تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ پاکستان جیسی جوہری ریاست کیلئے یہ ایک شرمناک حقیقت ہے کہ دنیا میں اس کا شمار تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنیوالے ممالک میںہوتا ہے۔ اس کی اہم وجہ ہماری پارلیمنٹ میں جاگیر دارانہ نظام کا مضبوط شکنجہ ہے جو تعلیم کو سب سے کم ترجیح دیتا ہے ۔ کیونکہ یہ ان کی جاگیردارانہ ذہنیت کے مفاد میں نہیں کہ ایک تعلیم یافتہ معاشرہ تشکیل پاسکے جو انکی جاگیر دارانہ طرز زندگی میں رکاوٹ ڈالے جس کیلئے انہوں نے لاکھوں مزارعوں اور کسانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ پاکستان نے درحقیقت 2002ء میںا علیٰ تعلیمی کمیشن کے قیام کے بعد تعلیم کے میدان میں شاندار ترقی کی اور تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ پاکستان کی جامعات کا شمار عالمی شمارے کے مطابق دنیا کی چوٹی کی چار سواعلیٰ جامعات میں ہوا جس میں NUST کا شمار 273پر اور UET (لاہور)کا شمار 281 پر تھا تاہم اس ترقی میں 2008ء کے بعد ایک طوفان آگیا جب ایچ ای سی کے بجٹ میں 50% کی کٹوتی کردی گئی اور 90% سے بھی زائد پروجیکٹس کو منجمد کر دیا گیا۔ ملک دشمن عناصر پاکستان کے اس واحد ادارے کو جو ترقی کی راہ پر پر وقار طریقے سے گامزن تھا تقریباًتباہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ نو مبر 2010ء میں حکو مت نے ان بدعنوان اراکین پارلیمنٹ کی پشت پناہی میں ایچ ای سی کو ٹکڑوں میں کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا کیو نکہ ایچ ای سی نے 53قومی رہنماؤں کی ڈگریوں کو جعلی قرار دے دیا تھا اور باقی 250اراکین کی جعلی ڈگریوں کا پول کھلنے کاخطرہ تھا لہٰذ اان اراکین پارلیمنٹ نے ایچ ای سی کو ٹکروں میں تقسیم کرنے کی سازش کی اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو گئے تھے لیکن صرف میری مداخلت کی بدولت سپریم کورٹ نے یہ بہت بڑا قومی نقصان ہونے سے بچا لیا اور فیصلہ دیا کہ حکومت کا ایچ ای سی کو ٹکڑوں میں کرنے کا قدم غیر آئینی ہے اور اس کی خودمختار حیثیت کو بحال کر دیا۔ پاکستان میں ابتدائی ، ثانوی اور تکنیکی تعلیم بھی مکمل بربادی کا شکار ہے ، ویران اسکولوں کی بھرمار ہے جہاں اساتذہ کی تنخواہیں جاگیر داروں کے ملازمین کو دی جاتی ہیں، ناخواندگی کا راج ہے او ر اصل خواندگی صرف 25% کے لگ بھگ ہے۔ہمارے جیسے ناخواندہ ملک جس میں جاگیر دارانہ نظام غالب ہے وہاں جمہوریت محض فریب اور سراب ہے۔ بعض بدعنوان سیاستدان لوٹ مار کرکے دولت کے ڈھیربیرون ملک جمع کرتے ہیں۔ ملک قرضوں کے بوجھ تلے ڈوب چکا ہے جبکہ ہمارے سیاستدان جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں غربت نے ملک کے بیشتر لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ دہشت گردوں کیلئے موافق ماحول مہیا کردیا گیاہے۔ان وجوہات کی بناء پر ہنرمند افراد اور کاروباری طبقہ بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے جو کہ ملک کی صورتحال کو مزید ابتر بنارہا ہے۔ امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک اس خطّے میں جنگی تیّاریوں کیلئے 200 ارب ڈالر سالانہ خرچ کرتے ہیںاگر اس میں سے ایک چو تھائی حصّہ پاکستان اور افغانستان کےعوام میں تعلیم عام کرنے کیلئے خرچ کردیں تو دہشت گردی کو جڑوں سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح تعلیم و تحقیق کے میدان میں جو بھی پیش رفت ہو رہی ہے اسکا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ رہا۔ اگر لیباریٹری کی سطح کی تحقیق کومصنوعات کی صورت میں بازار تک نہیں لایا جا ئے گا تو علم پر مبنی معیشت کا قیام ممکن نہیں ہوگا۔اس کیلئے کئی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو پاکستان کو قومی سطح پر ایک واضح سائنس و ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کی پالیسی قائم کرنی چاہئے۔ اس قومی STI پالیسی کے تحت یہ یقینی بنایا جائے کہ کسی بھی منصوبے کی منظوری کے لئےٹیکنالوجی کی منتقلی اہم جز ہو۔ دوسرے یہ کہ جدید میدانوں میں قائم ہو نے والی نئی کمپنیوں کو فروغ دینے اور مضبوط کرنے کیلئے کاروبار میں سرمایہ کاری کیلئے رقوم مہیّا کی جائیں۔ تیسرے یہ کہ نجی تحقیق و ترقی کے شعبوں کو مراعات کےذریعے متحرک کیا جائے۔ آخری یہ کہ علم پر مبنی معیشت میں منتقلی کیلئے ایک واضح سنگ میل پر عمل کیا جائے ۔ایسےسنگ میل پر عمل کیا جائے جیسا میری قیادت میں تیار کیا گیا تھا تین سو صفحاتی مسودے بعنوان ’ٹیکنالوجی کی بنیاد پر سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے صنعتی نظریہ ‘ جسے کابینہ نے 30 اگست 2007 ء میں منظور کر لیا تھا۔ اس میں بڑے واضح انداز میں مختلف شعبہ جات ، مثلاً زراعت، برقیات، انجینئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، حیاتیاتی ٹیکنالوجی ، کیمیات و ادویات ، کپڑا سازی میں کن خاص منصوبوں پر عملدرآمد کیا جانا چاہئے ان کامفصل ذکر موجودہے ۔ان منصوبوں پرنفاذ کیلئے ایک بین الوزارتی کمیٹی قائم کی گئی تھی لیکن یہ مسودہ حکو متی فائیلوں کے ڈھیر میں کہیں دبا پڑا ہے۔ موجودہ کم آمدنی معیشت سے مضبوط علم پر مبنی معیشت میں منتقلی اتنی آسانی سے نہیں ہو سکتی ۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب بصارت رکھنے والے ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت قائم ہو گی ۔ چین اور کوریا کی کابینہ ملک کے نامور سائنسدانوںاور انجینئروں پر مشتمل ہیں۔ کوریا نے تو اپنے وزیر اعلیٰ تعلیم اور وزیر سائنس و ٹیکنالو جی کو نائب وزیراعظم کا درجہ دے دیا ہے۔ مو جودہ رائج برطانوی پارلیمانی نظام جمہوریت بارہا ناکام ہو چکا ہے۔ ہمیں ضرورت ہے کہ ہم صدارتی جمہوریت قائم کریں اور نیب، ایف آئی اے، پولیس، ریلوے، اسٹیل مل اور ایف بی آر وغیرہ کو حکو متی دباؤ سے آزاد کردیں ۔ یہ ادارے مکمل طور پر خود مختار حیثیت کے حامل ہوں، آزاد اور صلاحیت کی بنیادوں پرتقرری کے تحت ان کے سربراہان مقرر کئے جائیں ۔
جب تک کہ، ایماندار، اور تکنیکی مہارت سے آراستہ حکومت قائم نہیں ہوگی جو انصاف اور انفرادی صلاحیت کوترجیح دے، پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔
ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح غریب اور کمزور ممالک نے مندرجہ بالا عناصر پر عمل کر کے خود کو چند دہائیوں میں مضبوط اور طاقتور ممالک میں شامل کر لیا۔ ہمیں بھی ان سے بہت کچھ سیکھنا چاہئے۔ ایشیا کے کئی ممالک نے ایسی قابل ذکر کامیابی محض مضبوط اور نظریاتی قیادت کے بل بوتے پر حاصل کی ۔ سنگاپور ہی کی مثال لے لیں ۔یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے جو کسی قسم کے قدرتی وسائل سے آراستہ نہیں ہے۔ 1960ء میں یہ غریب ملک تھا۔ اگلی چند دہائیوں ہی میں یہ اقتصادی دیو میں منتقل ہو گیا۔ اور یہ سب سنگاپور کے پہلے وزیراعظم ، لی کوان یو کی نظریاتی اور ایماندار قیادت کی بدولت ہوا۔ انہوں نے 5جون 1959ء میں بحیثیت وزیر اعظم اقتدار سنبھالا اور تین دہائیوں تک حکومت کی۔نتیجہ یہ کہ ایک ننھا ساملک جس کی آبادی کراچی کی آبادی سے ایک چوتھائی ہے اور کسی قسم کے قدرتی وسائل بھی نہیں ہیں، اس کی سالانہ برآمدات آج پاکستان کی برآمدات سے5 2 گنا زیادہ ہیں اور فی کس GDP ، برطانیہ، امریکہ، جاپان اور جرمنی سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
ہماری حکومت کو اپنے وعدے کا پاس رکھتے ہوئے جلد از جلد تعلیم کیلئے ملک کے GDP کا کم ازکم 4% مختص کرنا چاہئے اگر ہم واقعی مضبوط علم پر مبنی معیشت کی جانب قدم بڑھانا چاہتے ہیں۔ افسوس ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا اور ہم صرف ہری، نیلی، پیلی، بسوں کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں اوربدعنوان افراد کو نیب کے چنگل سے بچانے میں لگے ہوئے ہیں ۔پاکستان آج ایک دو راہے پر کھڑا ہے اور ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس ملک کو کس سمت جانا ہے یہ فیصلہ ہمارے ملک کے مقتدر ادارے ہی کر سکتے ہیں۔