• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ نے لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کیلئے عداتی کمیشن کیوں قائم کیا ؟ اس معاملے پر تو بہت بحث ہو چکی تو ایک دفعہ پھر لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کا حکم دیکر سپریم کورٹ کیا حاصل کرنا چاہتی ہے ؟یہ ہیں وہ سوالات جو میڈیا کا ایک مخصوص حصہ لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن کے قیام کا حکم جاری ہونے کے بعد اٹھا رہا ہے ۔ یہ درست ہے کہ لال مسجد آپریشن پر بہت بحث ہوتی رہی ہے لیکن اس آپریشن کے پس منظر اور اصل مقاصد سے قوم ابھی تک بے خبر ہے ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ جولائی 2007ء میں جنرل پرویز مشرف کے حکم پر پاکستانی فوج نے لال مسجد اسلام آباد میں آپریشن کیا تھا لیکن پچھلے پانچ سال سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ عدالتوں میں وضاحتیں پیش کرنے کیلئے پولیس افسران کو بھیج دیا جاتا ہے۔
4دسمبر 2012ء کو بھی یہی ہوا ایک پولیس افسر نے عدالت میں کہا کہ آپریشن کے بعد لال مسجد سے کسی خاتون کی لاش نہیں ملی ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس موقف کو مسترد کر دیا کیونکہ لال مسجد میں مولانا عبدالرشید غازی کی معمر والدہ سمیت جامعہ حفصہ کی کئی طالبات کی لاشوں کے عینی شاہدین آج بھی زندہ ہیں ۔ لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کیلئے کمیشن کا قیام اس لئے ضروری تھا کہ اس آپریشن کے بعد پاکستان میں خودکش حملوں کا خوفناک طوفان شروع ہوا ۔اسی آپریشن کے بعد تحریک طالبان پاکستان وجود میں آئی ۔ جنرل پرویز مشرف لال مسجد والوں کے ساتھ پیدا ہونے والے تنازع کو مارچ 2007ء میں بڑی آسانی کے ساتھ حل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے جسٹس افتخار محمد چودھری کے حق میں چلنے والی وکلاء تحریک سے عوام اور میڈیا کی توجہ ہٹانے کیلئے لال مسجد کے معاملے کو مزید بگاڑا اور دنیا کو یہ تاثر دیا کہ مذہبی انتہا پسند اسلام آباد تک پہنچ چکے ہیں اگر وہ حکومت میں نہ رہے تو اسلام آباد پر مذہبی انتہا پسندوں کا قبضہ ہو جائے گا ۔ جون 2007ء میں آرمی ہاؤس راولپنڈی میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ میری آخری ملاقات ہوئی ۔ اس ملاقات میں کچھ دیگر ٹی وی اینکرز بھی موجود تھے جن میں سے ایک صاحب چند ماہ کے بعد حکومت کے وزیر بن کر ہمیشہ کیلئے آپے سے باہر ہو گئے۔اس ملاقات میں جنرل پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ پاکستان کا اصل مسئلہ چیف جسٹس کی معزولی نہیں بلکہ لال مسجد ہے آپ لوگوں کو لال مسجد پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ میں نے مشرف سے کہا کہ یہ مسئلہ آپ نے خود پیدا کر رکھا ہے آپ اس کو حل نہیں ہونے دے رہے مسجد کے اندر کچھ ایسے عسکریت پسند موجود ہیں جن پر مولانا عبدالعزیز اور عبدالرشید غازی کا کنٹرول نہیں یہ کوئی معاملہ مذاکرات سے طے نہیں ہونے دیتے اور انہیں آپ کے ایک ادارے کی خفیہ سرپرستی حاصل ہے ۔ مشرف یہ سن کر غصے میں آ گئے انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے ؟ میں نے جواب میں کہا کہ آپ کی پولیس نے مسجد میں اسلحہ لے جانے والی ایک گاڑی روکی اسلحہ برآمد کیا اور ایک مفتی صاحب کو گرفتار بھی کر لیا مقدمہ بھی درج ہو گیا لیکن کچھ گھنٹوں کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا ۔ میں نے کہا کہ اس واقعے کی تصدیق اپنے سیکرٹری داخلہ کمال شاہ سے کر لیں ۔ مشرف نے کمال شاہ سے پوچھا تو انہوں نے تصدیق کر دی لیکن اس کے بعد میری کم بختی آ گئی ۔
حقائق یہ ہیں کہ ایک طرف میڈیا میں کچھ عناصر کے ذریعہ لال مسجد میں آپریشن کیلئے ماحول پیدا کیا گیا دوسری طرف کچھ نام نہاذ مجاہدین کو مسجد میں داخل کرکے حالات بگاڑے گئے جب آپریشن شروع ہوا تو یہ نام نہاد مجاہدین وہاں سے نکل گئے اور بے گناہ لوگوں کا خون بہا دیا گیا ۔ لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کیلئے کمیشن کو سابق سیکرٹری داخلہ کمال شاہ کے علاوہ سابق وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ، سابق وزیر مذہبی امور اعجاز الحق ، چودھری شجاعت حسین اور مولانا عبدالعزیز سے یہ ضرور پوچھنا چاہئے کہ لال مسجد اور حکومت میں تنازعہ کیسے شروع ہوا اور جب بھی تنازعہ طے ہونے کے قریب آتا تھا تو کون گڑبڑ پیدا کرتا تھا ؟ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مشرف حکومت نے لال مسجد میں آپریشن کیلئے وہ دن منتخب کیا جس دن لندن میں نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ اس خاکسار نے 20فروری 2007ء کو روزنامہ جنگ میں اپنے کالم میں خبردار کر دیا تھا کہ جامعہ حفصہ کی طالبات اور حکومت کے درمیان تنازع کی اصل وجہ سو برس پرانی مسجد امیر حمزہ  کی شہادت ہے اس تنازعے کو مذاکرات سے حل کیا جائے اگر طالبات کی لاشیں گرائی گئیں تو اسلام آباد بغداد بن جائے گا ۔ میرے اس کالم کے بعد اعجاز الحق نے مذاکرات شروع کئے۔ مولاناعبدالعزیزاورمولانا عبدالرشید غازی نے ان مذاکرات میں مجھے اور جاوید ابراہیم پراچہ کو بطور گواہ بٹھا دیا ۔ تاکہ اعجاز الحق میڈیا کے سامنے غلط بیانی نہ کریں ۔ مولانا عبدالعزیز کا مطالبہ یہ تھا کہ مسجد امیر حمزہ سمیت اسلام آباد میں منہدم کی جانے والی دیگر چھ مساجد کو دوبارہ تعمیر کیا جائے ۔ اعجاز الحق مان گئے باہر نکلے تو سی ڈی اے نے لال مسجد گرانے کا نوٹس جاری کر دیا اور یہ مذاکرات ناکام ہوگئے ۔ وہ کون تھا جو مذاکرات کی ناکامی چاہتا تھا ؟
اعجاز الحق کے بعد چودھری شجاعت حسین نے مذاکرات شروع کئے ۔ ان مذاکرات کی وجہ جیو ٹی وی پر کیپٹل ٹاک میں ہونے والی گفتگو بنی ۔ یہ گفتگو میں نے اس وقت کے وزیر مملکت برائے اطلاعات طارق عظیم کے ہمراہ لال مسجد کے اندر مولانا عبدالعزیز اور عبدالرشید غازی صاحب کے ساتھ کی تھی ۔ دونوں بھائیوں نے مذاکرات کے ذریعہ معاملے طے کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی لہٰذا طارق عظیم کے توسط سے چودھری شجاعت حسین نے مذاکرات شروع کئے جن میں چودھری وجاہت حسین بھی شامل تھے ۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ چودھری شجاعت حسین مئی 2007ء میں معاملہ طے کر چکے تھے لیکن مشرف نہیں مانے کیونکہ وہ لال مسجد تنازع کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر رہے تھے ۔ اس دوران وفاقی دارالحکومت کے شہریوں نے لال مسجد کی طالبات کو عصمت فروشی کا اڈہ چلانے والی ایک عورت آنٹی شمیم کے خلاف استعمال کیا کیونکہ پولیس اس عورت کے خلاف کارروائی نہیں کرتی تھی۔ ایک انگریزی میڈیم سکول کی طالبہ بھی جامعہ حفصہ  پہنچ گئی اور ایک مساج پارلر پر ریڈکروا دی ۔ ان واقعات کو بنیاد بنا کر کچھ لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ریاست کی رٹ چیلنج ہو گئی ہے لہٰذا ریاست اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے آپریشن کرے ۔ معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا ۔ دراصل پرویز مشرف اسلام آباد میں ایک بہت بڑا ڈرامہ رچانا چاہتے تھے لیکن حکومت کے اندر اس ڈرامے کی مخالفت کی جا رہی تھی ۔ چودھری شجاعت حسین کے علاوہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اشفاق پرویز کیانی بھی لال مسجد میں طاقت کے استعمال کے خلاف تھے ۔ آج جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ میڈیا لال مسجد آپریشن کے اصل حقائق سامنے لانے میں ناکام رہا وہ بھول جاتے ہیں کہ لال مسجد آپریشن سے قبل اسلام آباد کے کچھ علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا اور آپریشن کے مناظر فلمانے کی کوشش کرنے والے ایک کیمرہ مین کی کمر میں گولی مار دی گئی تھی وہ آج تک بستر پر ہے ۔ اس سارے ڈرامے کاسب سے تکلیف دہ منظر اس وقت سامنے آیا جب مولانا عبدالعزیز کو دھوکے سے لال مسجد سے باہربلا کر گرفتار کرا دیا گیا اور پھر برقعہ پہنا کر پی ٹی وی ہیڈکوارٹر لایا گیا ۔ یہاں پر پہلے تو ایک صحافی نے انکی آن کیمرہ انکوائری کی اور انہیں خوب برا بھلا کہا اس کے بعد ایک اور اینکر سے انٹرویو ریکارڈ کروا کر پی ٹی وی پر نشر کر دیا گیا ۔ اس انٹرویو کے بعد میری عبدالرشید غازی سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میرے بھائی کے ساتھ جو ہوا اس کے بعد شہادت کے سوا میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا ۔ اس کے باوجود چودھری شجاعت حسین نے فضل الرحمان خلیل کی مدد سے غازی صاحب کو ہتھیار ڈالنے پر رضامند کر لیا تھا لیکن مشرف کو اپنا اقتدار بچانے اور امریکہ کو دکھانے کیلئے کچھ لاشیں چاہئیں تھیں ۔ وہ لاشیں اسے مل گئیں اور ہم آج تک لاشیں اٹھاتے پھر رہے ہیں ۔ طارق اسد ایڈووکیٹ نے جولائی 2007ء میں لال مسجد آپریشن رکوانے کیلئے ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی وہ آپریشن تو نہ رکوا سکے لیکن انہوں نے ”لال مسجد کا مقدمہ “ کے نام سے ایک کتاب لکھ ڈالی ۔ اس کتاب کو پڑھئے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ  میں لا تعداد نہتی بچیوں کا خون بہایا گیا ۔ ان بچیوں کو ان کی ساتھیوں نے مدرسے کے احاطے میں قبریں کھود کر دفن کر دیا ۔ جو لاشیں دفن نہ ہو سکیں وہ جل گئیں یا غائب کر دی گئیں یہ لاشیں گرانے اور غائب کرنے والوں کو بے نقاب کئے بغیر پاکستان میں امن نہیں آئے گا ۔
تازہ ترین