اسلام آباد(رپورٹ/ رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نے ایگزیکٹ کے چینل کے پروگرام کے میزبان اور پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت کے خلاف جنگ ،جیو گروپ ، میر شکیل الرحمٰن ، میر ابراہیم اور شاہ زیب خانزادہ کی جانب سے دائر کی گئی توہین عدالت کی درخواستوںکی سماعت کے دوران ملزم کی غیر مشروط معافی کی استدعا کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر اس پر فرد جرم عائد کرنے کا حکم جاری کیاہے جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت توہین عدالت کے مرتکبین کو معاف نہیں کرے گی ،ہم یہاں تذلیل کرانے کے لئے نہیں بیٹھے ہوئے ہیں،ملزم پر لازماًفرد جرم عائد کی جائے گی ، عامر لیاقت دوسروں کو بل سے باہر آنے کا کہتے تھے اب خود بل سے باہر نکلیں ،دوران سماعت ملزم عامر لیاقت خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے بار بار معافیاں مانگتے رہے تاہم انہوں نے اپنے پروگرامز میں میر شکیل الرحمٰن ، میر ابراہیم اور اینکر شاہ زیب خانزادہ پر بھارت کے ایجنٹ کا الزام لگایا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے منگل کے روز توہین عدالت کی درخواستوں کی مختصر سماعت کی تو ایگزیکٹ کے چینل اور عامر لیاقت کے وکیل شہاب سرکی نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزم نے ایک بار پھر عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے خود کو عدالتی رحم و کرم پر چھوڑدیا ہے، عدالت اسے معاف کر دے ،جس پرفاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ معافی دینا چھوڑ دی ہے، اب کسی کو معافی نہیں ملے گی، یہ عدالتی حکم کی تضحیک کرتے رہے ہیں اور بار بار انہوں نے خلاف ورزی کی ہے، عدالتی حکم کے باوجود اپنا رویہ نہیں بدلا ہے ، ہم اب یہ اپنے اوپر الزام کا دفاع کریں ،انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے پچھلی سماعت کے دوران ملزم پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا اورایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو فرد جرم تیار کرنے کا حکم دیا تھا، چارج شیٹ کہاں ہے؟ تو عدالت کو بتایا گیا کہ عامر رحمان اس وقت عدالت میں موجود نہیں ہیں ، فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ عامر لیاقت ٹی وی پر دوسروں کو بل سے باہر آنے کا کہتے تھے، اب خود بل سے باہر آئیں ، یہ توبڑے زور و شور سے ٹی وی پر آتے ہیں،جس پر کمرہ عدالت کی سب سے پچھلی نشست پر بیٹھے ملزم عامر لیاقت روسٹرم پر آگئے اور نہایت ادب سے فاضل عدالت سے اجازت لیکر نہایت احترام سے بولے کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے،میں خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے ایک بار پھر معافی مانگتا ہوں، ازراء کرم مجھے معاف کردیا جائے ، انہوں نے کہا کہ اپنی ماضی کی تمام باتوں کی معافی مانگتا چاہتا ہوں، غلطی ہوگئی تھی عدالت معاف کردے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کوفرد جرم تیار کرنے کا حکم جاری کررکھا ہے ، وہ آجائیں گے تو آج ہی آپ پر فرد جرم عائد کردی جائے گی ، جس پر وہ خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے بار بار معافیاں مانگتے رہے تاہم عدالت نے اس کی استدعا پر کوئی غور نہ کیا اور کیس میں وقفہ کردیا گیا تاہم ،بعد ازاںایڈیشنل اٹارنی جنرل کی عدم موجودگی اور عدالتی وقت ختم ہوجانے کی بناء پر کیس کی مزید سماعت غیر معینہ دنوں کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ یاد رہے کہ 11ستمبر کو ہونے والی ساعت کے دوران ملزم عامر کے وکیل شہاب سرکی نے عدالت کو بتایا تھا کہ عامر لیاقت کی جانب سے جواب جمع کرا دیا گیا ہے،جس پر فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ ہم اس کاجائزہ لے رہے ہیں لیکن اگر کیس بنتا ہے تو عامر لیاقت پر توہین عدالت میںفرد جرم عائد کی جائے گی ، درخواست گزار(جنگ ،جیو گروپ )کے وکیل فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ توہین عدالت کا واضح کیس ہے،فاضل چیف جسٹس نے کہا تھا کہ تحریری جواب میں بھی عامر لیاقت نے معافی مانگنے کی بجائے مقدمہ لڑا ہے، اگر ثابت ہو گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو اس پر کسی قسم کی کوئی معافی نہیں ملے گی ، جنگ جیو کے وکیل نے کہا تھا کہ یہ عدالتی حکم کے بعد بھی اس معاملہ میں عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تھا کہ معافی نامہ میں لکھا ہے کہ آج کے بعد میرے خلاف کوئی شکایت موصول نہیں ہوگی، انہوں نے یقین دہانی کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ غیر مشروط معافی مانگتا ہوں اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے اوپر والے جواب میں اس نے لکھا ہے کہ وہ کسی الزام کو تسلیم نہیں کرتا ہے ،انہوں نے عامر لیاقت کے وکیل سے استفسار کیا کہ اگر ان کے موکل پر توہین عدالت کاالزام ثابت ہو گا تو کیا یہ قومی اسمبلی کے رکن رہ سکیں گے ،جس پر انہوں نے کہا کہ اس کے بعد رکن نہیں رہ سکتے ،فاضل چیف جسٹس نے کہا تھا کہ عامر لیاقت کی جانب سے عدالت میں جمع کرایا گیا معافی نامہ قابل قبول نہیں ہے ،عدالت اس معاملہ کو اس طرح نہیں چھوڑے گی ، عدالت کے حکم پر ملٹی میڈیا سسٹم پر عامر لیاقت حسین کے پروگرام کے دو مختلف کلپ چلائے گئے تو درخواست گزاروں کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا تھا کہ یہ عدالت کو گمراہ کر رہے ہیں، سپریم کورٹ کا پہلا حکم6مارچ2017کا ہے ، جس کے بعد چینل پر اس نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے خلاف پروگرام کئے تھے ، فاضل چیف جسٹس نے بھی ریمارکس دیئے کہ کلپ دیکھ کربادی النظر میں تو یہی لگتا ہے کہ عامر لیاقت اپنے پروگرام میں ، میر ابراہیم اور میر شکیل اکرحمان ہی کو سن آف بھارت اور فادر آف دی بھارت کہہ رہے ہیں،جس پر عامر لیاقت کے وکیل نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، دراصل وہ یہ بات زی ٹی وی کے اینکر کیلئے کہہ رہے ہیں،جس پر فاضل چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ کو بھی سمجھ آ رہی ہے اور ہمیں بھی سمجھ آ رہی ہے، پروگرام میں ان کے چہرے کے تاثرات سے بھی یہی لگ رہا ہے،ایسے مقدمات میں باڈی لینگوئج کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے ۔