• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انٹرویو: فاروق احمد انصاری، لیاقت علی جتوئی

جنگ: وزیر اعظم عمران خان نے ملک میںکم آمدنی والے افراد اور خاندانوں کے لیے 50لاکھ گھر بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے سے متعلق آپ کے خیالات جاننا چاہیں گے کہ کیا یہ منصوبہ واقعی قابلِ عمل ہے؟

ڈاکٹر طلحہ: اس منصوبے کے پیچھے وزیراعظم عمران خان کی سوچ بہت اچھی ہے۔جہاں تک قابلِ عمل ہونے کی بات ہے تو تخمینہ کے مطابق اس کے لیے 180ارب ڈالر کا سرمایہ چاہیے، جو پاکستان کے پاس نہیں ہے۔ ساتھ ہی حکومتی نمائندے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ عوام کو 15سے 20لاکھ روپے میں گھر دیا جائے گا تو یہ بھی ناممکن ہے۔ میں آپ کو بتاؤں کہ 120گز کے گھر کے ساتھ جو سڑک بنتی ہے، نکاسی آب کا نظام بنایا جاتا ہے، پانی کی لائن ڈالی جاتی ہے، بجلی اور گیس کا کنکشن لیا جاتا ہے، تو اس سب پر ہی 8سے9لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب پروجیکٹ بڑے پیمانے پر بنایا جائے۔ اس میں بجلی، گیس اور پانی کے کنکشن چارجز شامل نہیں ہیں۔ جب میں بطور پرائیویٹ بلڈر کے الیکٹرک کے پاس میٹر لینے جاتا ہوں تو وہ میٹر مجھے کم از کم 3سے 4لاکھ روپے کا ملتا ہے، حکومت کو ظاہر ہے وہ سستا ملے گا۔ گھر کی مجموعی لاگت میں زمین کا بڑا حصہ ہوتا ہے اور اگر حکومت زمین مفت فراہم کردے تو بھی ایک سنگل اسٹوری گھر، جس میں دو بیڈ روم اور چھوٹے سے کچن کے ساتھ ایک لاؤنج ہو، اس کی تعمیراتی لاگت کم از کم 10لاکھ روپے بنتی ہے۔ اس طرح، صرف ایک مکان کی بنیادی تعمیراتی لاگت (جس میں زمین مفت ہو) 20لاکھ روپے بنتی ہے۔ نجی شعبے کا جو بلڈر اس منصوبے کے تحت گھر بنائے گا، کچھ منافع وہ بھی اپنے لیے رکھے گا، بینک سے جو قرضہ لیا جائے گا، اس پر بینک بھی اپنا کچھ منافع لے گا۔ اب آپ خود اندازہ لگالیں کہ ایک کم آمدنی والے خاندان کو یہ گھر کتنے میں پڑے گا۔ اس کے باوجود، میں پھر اپنی بات دہراؤں گا کہ سوچ بہت اچھی ہے، اگر دُرست سمت میں اس منصوبے پر پیش رفت کی جائے اور آدھے نہیں تو آدھے کے آدھے ، یا اُس کے آدھے گھر بھی بن جائیں تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔

جنگ: کہا یہ جارہا ہے کہ گھر کی 20فیصد رقم غریب خاندان سے لی جائے گی، جبکہ 80فیصد بینک کا قرضہ ہوگا، جسے 20سال کے عرصہ میں قسطوں میں ادا کرنا ہوگا۔ اگر بینک منافع کو شامل کیا جائے تو گھر کی قیمت شاید اچھی خاصی اوپر چلی جائے گی۔آپ کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر طلحہ: بینک قرضے ’کراچی انٹربینک آفرڈ ریٹ‘ (KIBOR)جمع بینک منافع کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں، تاہم ’نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم‘ کے لیے حکومت KIBORریٹ کو 2یا 3فیصد پر لے جارہی ہے اور اس طرح مجموعی طور پراس اسکیم کے تحت بینک قرضہ سات، ساڑھے سات فیصد پر دستیاب ہوگا، اگر ایسا ہوجائے تو یہ ایک اچھا اقدام ہوگا۔ ایسے نوکری پیشہ افراد، جو پوری زندگی کرائے کے مکان میں گزار دیتے ہیں، ان کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہوگا کہ اپنا گھر حاصل کرلیں۔ تاہم اس منصوبے میں شفافیت اہم ہے۔ وزیراعظم کی سوچ تو اچھی ہے لیکن یہ دیکھنا ہوگاکہ وزیراعظم کی سوچ کے مطابق اس پر کیسے عمل درآمدکیا جائے گا۔

جنگ: آپ کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی سوچ تو بہت اچھی ہے لیکن غریبوںکو جن سستے گھروں کی نوید سُنائی جارہی ہے، وہ اتنے بھی سستے نہیں ہونگے؟

ڈاکٹر طلحہ: میرا خیال ہے کہ اگر حکومت کے منصوبے میں کوئی رکاوٹ نہ آئے اور سب لوگ نیک نیتی سے کام کریں تو 25سے 30لاکھ روپے میں غریب اور کم آمدنی والے خاندانوں کو یہ گھر مل سکتا ہے، جوکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک غریب خاندان کے لیے آج کے لحاظ سے بہت اچھی قیمت ہے۔

جنگ: اس اسکیم کے تحت بلڈر یا ٹھیکیدار نجی شعبہ سے لیا جائے گا۔ نجی شعبے کا ایک بلڈر ہونے کے ناطےکیا آپ بتاسکتے ہیں کہ اس سلسلے میں حکومت نے آپ سے بات کی ہے؟

ڈاکٹر طلحہ: جی بالکل، وزیراعظم صاحب نے اس سلسلے میں نجی شعبے سے ملاقاتیں کی ہیں اور ہماری تنظیم ’ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیویلپرز‘ کے چیئرمین سے بھی بات چیت ہوئی ہے۔ ہمارے چیئرمین پرامید ہیں کہ جس طرح وزیراعظم صاحب اس منصوبے کو آگے لے کر جانا چاہتے ہیں، اگر اسی طرح اس پر عمل درآمد ہوگیا تو انتہائی حوصلہ افزا نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ مثال کے طور پرکراچی اور حیدرآباد کے درمیان نوری آباد کے آس پاس حکومت 10ہزار ایکڑ رقبہ پر120گز کے 2لاکھ گھر بناسکتی ہے۔ وہاں کی آبادی کو کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ بآسانی جوڑا جاسکتا ہے۔ حکومت کو موٹروے پر صرف بڑی بسیں چلانا ہونگی اور کراچی میں نوکری کرنے والے لوگ آدھے گھنٹے میں وہاں سے الآصف اسکوائر پر پہنچ جائیں گے۔ شرط یہ ہے کہ حکومت اس پر مجوزہ منصوبے کے مطابق اول تا آخر عمل درآمد کرنے میں کامیاب ہوجائے۔

جنگ:کیا آپ کو خدشات ہیں کہ گزشتہ حکومتوں کے دیگر کئی منصوبوں کی طرح اس منصوبے پر عمل درآمد ہونے میں کسی قسم کی رکاوٹ یا تعطل ہوسکتا ہے، جیسے سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو ان دنوں آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں نیب کی تفتیش کا سامنا ہے؟

ڈاکٹر طلحہ: مجھے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کا زیادہ علم نہیں لیکن اگر 10سال بعد بھی اس اسکیم کے تحت گھر نہ بن سکے تو صرف سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب ہی نہیں تمام ذمہ داران کو جیل نہیں بلکہ سزا بھی ہونی چاہیے، تاکہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرسکے۔ اس کے علاوہ، میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ان کو بھی سزائیں ہونی چاہئیں، جنھوں نے ہاکس بے اسکیم لانچ کی اور آج 40سال بعد بھی وہاں ایک گھر نہیں بن سکا، ان لوگوں کو بھی سزائیں دیں جنھوں نے ایم ڈی اے کی اسکیم ایک دفعہ نہیں کئی بار لانچ کی لیکن وہاں آج تک کوئی رہنے نہیں گیا، ان لوگوں کو بھی سزائیں دیں جنھوں نے تیسر ٹاؤن لانچ کیا اور وہاں آج تک ایک بھی گھر نہیں بنا، ان لوگوں کو بھی سزا دیں جنھوں نے حیدرآباد میں گلستان سرمست اسکیم شروع کی، جس میں کوئی دو، چار ہزار نہیں 80ہزار پلاٹ ہیں۔ ان سب ناکام اسکیموں کے ذمہ داران کیخلاف بھی قانون کا شکنجہ کسا جانا چاہیے۔

’نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم‘ کے حوالے سے میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ حکومت اس بات کو ضرور یقینی بنائے کہ ایک شناختی کارڈ پر صرف ایک گھر ملنا چاہیے، ایسا نہ ہوکہ بڑے بڑے سرمایہ کار گھس جائیں، جس سے اس اسکیم کا ستیاناس ہوجائے گا۔ اگر حکومت کسی بھی سطح پر کوئی سبسڈی دے رہی ہے تو پھر یہ گھر صرف ان لوگوں کو ملنے چاہئیں، جن کے پاس کوئی جائیداد نہ ہو۔

جنگ: لیکن یہ ہوگا کیسے کیونکہ یہاں تو کوئی ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرواتا۔ 22کروڑ کی آبادی میں صرف 8-7لاکھ لوگ ہی ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے ہیں، باقی کے بارے میں حکومت کے پاس تو کوئی ریکارڈ ہی نہیں کہ وہ کتنا کماتے ہیں، ذریعہ آمدن کیا ہے اور ان کی کیا جائیدادیں ہیں؟

ڈاکٹر طلحہ: اگر حکومت پختہ ارادہ کرلے تو چند دنوں میں پورا پاکستان ٹیکس نیٹ میں آسکتا ہے۔ اگر ایک دفعہ حکومت پاکستان یہ اعلان کردے کہ ہر شہری اپنی ساری جائیداد چاہے وہ زرعی زمین ہو، چاہے وہ کمرشل پلاٹ ہو، چاہے وہ سو فلیٹوں پر مشتمل ایک بلڈنگ ہو، چاہے وہ ڈی ایچ اے کے پلاٹ ہوں، سب مارکیٹ ویلیو پر ایف بی آر میں رجسٹر کرائیں اور رجسٹر نہ کرانے کی صورت میں وہ تمام جائیداد حکومت ضبط کرلے گی۔ اس کے لیے حکومت چاہے تو 6مہینے کا وقت دے دے۔ اس کے بعد ہوگا یہ کہ ہر شخص ایف بی آر کی طرف بھاگے گا اور پاکستان کی معیشت کا حجم 20گنا بڑھ جائے گا۔ساتھ ہی حکومت یہ اعلان بھی کرے کہ ان جائیدادوں پر حکومت مارکیٹ قیمت پر صرف 2فیصد ٹیکس وصول کرے گی۔ 2فیصد سے حکومت کو سیکڑوں ارب روپے آمدنی حاصل ہوگی۔ حکومت بھلے اس ٹیکس کی ادائیگی کے لیے انھیں دو، تین یا پانچ سال کا وقت دے دے، بس شرط یہ ہو کہ جب وہ شخص اپنی جائیداد فروخت کرے تو اس پر ٹیکس ادا کیا گیا ہو۔ رعایتی مدت ختم ہونے کے بعد بھی جو شخص ٹیکس ادا نہ کرے، حکومت ہر سال اس پر 25فیصد اضافی جرمانہ بڑھاتی جائے۔ عوام کو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جس شخص نے کرپشن کے پیسے سے اپنے بیوی بچوں کے نام پر جائیدادیں لی ہوئی ہیں، وہ اپنی جائیدادیں بیچنے مارکیٹ میں آئے گا، جس سے پلاٹوں کی قیمتیں گریں گی اور حق حلال کے پیسے کمانے والے لوگ بھی پلاٹ خرید کر اپنے گھر بناسکیں گے۔

قیمتوں کو مارکیٹ ریٹ پر ڈکلیئر کرانے کے بعد، حکومت پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی کے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کردے اور اسے رجسٹرار آفس سے لِنک کردے کہ پراپرٹی ٹیکس ادا ہونے کی صورت میں ہی خرید و فروخت کی اجازت ہوگی۔ اس طرح لوگ اپنی جائیدادیں ایف بی آر کے پاس ظاہر کرنے پرمجبور ہوجائیں گے۔ پاکستان جس نہج پر پہنچ چکا ہے، وزیراعظم عمران خان کو کچھ سخت اور مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے اور اس میں عوام اور اداروں کو وزیراعظم کا ساتھ دینا چاہیے۔

جنگ: وزیراعظم کو اور کیا سخت فیصلے لینے چاہئیں، اگر آپ تعمیراتی صنعت سے متعلق مزید کچھ بتانا چاہیں؟

ڈاکٹر طلحہ: اس شہر میں مافیا نے پورشن کے کاروبار کو عروج پر پہنچا دیا ہے، جس سے انفرااسٹرکچر اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ایک گھر کو توڑ کر چار منزلہ فلیٹ بنادیے جاتے ہیں اور انھیںکے الیکٹرک سے 8میٹر او رواٹر بورڈ سے پانی کا کنکشن بھی مل جاتا ہے۔ اس کے بعد مذہب کے نام پر قبضہ مافیا بہت سرگرم ہے۔ جہاں موقع ملا، کسی کے بھی خالی پلاٹ پر قبضہ کرکے مسجد بنادی جاتی ہے، ساتھ ہی اس میں دکانیں بنا کر فروخت کی جاتی ہیں۔ قبضہ مافیا نے اپنے غیرقانونی کاروبار میں مذہب کی آڑ لے لی ہے۔ گزشتہ 10سال میں جس کسی نے بھی ایسا کیا ہے، حکومت ان کے خلا ف ایکشن لے، جرم ثابت ہونے پر انھیں سزائیں سُنائے، اس کے بعد کوئی بھی فرقہ مذہب کے نام پر بلیک میل نہیں کرے گا۔

جنگ: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جب حکومت اتنے بڑے پیمانے پر گھر بنانے کا بیڑا اٹھارہی ہے او رلوگوں کو سستے گھر ملیں گے تو ایسے میں کہیں یہ صورت حال تو پیدا نہیں ہوجائے گی کہ سارے خریدار اس طرف چلے جائیں اور نجی شعبے کے بلڈرز کے پروجیکٹس میں عوام کی دلچسپی کم ہوجائے؟

ڈاکٹر طلحہ: روٹی، رزق اور نصیب اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے، اسے نہ کوئی بدل سکتا ہے اور نہ اس میں کمی کرسکتا ہے۔ اس بات پر انسان کا اعتقاد پکا ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ راستے بنادیتا ہے۔ اس کی ایک آسان مثال میں آپ کو یہ دیتا ہوں کہ جب بحریہ ٹاؤن، کراچی میں آیا تو لوگوں نے کہا کہ کراچی کے تمام بلڈرز کا کاروبار ختم ہوجائے گا اور سب کا پیسہ وہاں چلا جائے گا۔ واقعی بحریہ ٹاؤن سب کا پیسہ لے بھی گیا، پوری دنیا سے پاکستانیوں نے اس میں سرمایہ کاری کی۔ لیکن اس کا میرے یا کسی اور کے پروجیکٹس پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ میں آج پہلے سے زیادہ منصوبوں پر کام کررہا ہوں۔ میں اس میں نہیں جاتا کہ بحریہ ٹاؤن کے لیے زمین کس طرح لی گئی، وہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور عدالت اسے دیکھ لے گی۔

جنگ: واٹر کمیشن کی کارکردگی پر آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟

ڈاکٹر طلحہ: میں اس مسئلے پر کیا بولوں، یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ میری رائے صرف یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو دیکھنا چاہیے کہ پانی کی قلت کا مسئلہ پورے ملک کا ہے، ہائی رائز بلڈنگز پر اگر پابندی ہونی چاہیے تو پورے ملک میں ہونی چاہیے، صرف کراچی میں نہیں۔ اوریہ پابندی مسئلہ حل ہونے تک سب پر ہونی چاہیے۔ کراچی میں 6منزلہ عمارتوں کی اجازت اس لیے دے دی گئی ہے کہ ڈی ایچ اے میں کام چلتا رہے۔ میرے پرانے پروجیکٹس مکمل ہورہے ہیں لیکن اس پابندی کی وجہ سے نئے پروجیکٹس شروع نہیں ہوپارہے۔ 6منزلہ عمارت کا مطلب ہے آدھا تیتر آدھا بٹیر۔

اس کے علاوہ، نقشہ پاس ہونے کے لیے واٹر بورڈ سے این او سی کی شرط لگادی گئی ہے، جس کا قانون میں کوئی ذکر نہیں۔ اس وجہ سے گزشتہ ایک سال سے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے ہمارا کوئی نقشہ پاس نہیں ہوا۔ میرے پاس ڈائریکٹ 400لوگ کام کرتے ہیں، 1800لوگ سائٹ پر مزدوری کرتے ہیں، مجھے مجبوراً ان میں کٹوتی کرنا پڑے گی۔ مزید برآں، پانی کی چوری ایک بڑا مسئلہ ہے، جس پر قابو پاکر کسی حد تک اس مسئلے کی سنگینی کو کم کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر، سپریم کورٹ کو چاہیے کہ ایم ڈی واٹر بورڈ کو بلاکر پوچھیں کہ حسن اسکوائر سے سائٹ ایریا کے لیے روزانہ 12-11لاکھ گیلن پانی چھوڑا جاتا ہے جبکہ وہاں صرف 1-1.5لاکھ گیلن پانی پہنچتا ہے۔ بیچ میں پانی کا اتنا بڑا حصہ کہاں جارہا ہے؟ اتنی بڑی چوری میں واٹر بورڈ کے اپنے لوگ ملوث ہیں۔ بجائے اس کے کہ آپ واٹر بورڈ کے کرپٹ حکام کو پکڑیں، آپ نے بلڈر کا گلا کاٹ دیا ہے کہ وہ بلڈنگ نہ بنائیں۔

جنگ: کنگز بلڈرز کی بات کر لیتے ہیں ۔ آپ کے پروجیکٹس کی کیا خصوصیات ہوتی ہیں جو آپ کو دوسروں سے منفرد بناتی ہیں؟ 

ڈاکٹر طلحہ: ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہم اپنے پروجیکٹس میں خالی جگہ زیادہ چھوڑیں ، کیوں کہ اسی زیادہ خالی جگہ کی وجہ سے مستقبل میں اس کی ویلیو زیادہ بڑھتی ہے ۔ دوسری کوشش ہم یہ کرتے ہیں کہ اپنے پروجیکٹس کی Maintenanceاپنے ہاتھ میں رکھیں ۔ کراچی کے اکثر پروجیکٹس میں یہ نہیں ہوتا ،جس کی وجہ سے چند ہی برسوں میں بلڈنگ کباڑہ بن جاتی ہے ۔ایک بلڈر کے لئے مینٹیننس اپنے پاس رکھنا بہت تکلیف دہ اور مشکل کام ہے لیکن ہم یہ کرتے ہیں ۔

جنگ: آنے والے 10-5سال میں ریئل اسٹیٹ کی کیا صورت حال رہے گی؟

ڈاکٹر طلحہ: یہاں نہ ایگری کلچر کی صنعت چلتی ہے اور نہ ٹیکسٹائل کی۔ پاکستان میں صحیح معنوں میں جو صنعت چلتی ہے، وہ ریئل اسٹیٹ کی ہی ہے۔ حکومت ایک بار کڑوا گھونٹ پی کر اس صنعت میں کالے دھن کو سفید کردے، 5ہزار روپے کا نوٹ ختم کردیا جائے، لوگوں کے پاس ڈالر ہو تو اسے جرم قرار دے دیا جائے، منی چینجرز کی جانب سے عام لوگوں کو ڈالر فروخت کرنے پر پابندی ہو، صرف اسٹیٹ بینک کے پاس یہ اختیار رہے، سمندر پار پاکستانی جب پاکستان رقوم بھیجے تو اسے انٹربینک کے بجائے اوپن مارکیٹ کا ریٹ دیا جائے، اس کے بعد کوئی پاکستانی حوالہ، ہنڈی سے پیسے نہیں بھیجے گا۔ اس کے لیےحکومت صرف اتنی شرط رکھے کہ سمندر پار پاکستانی بیرونِ ملک سے اپنے اکاؤنٹ کے ذریعے رقوم بھیجے گا اور یہاں بھی اس کا اپنا اکاؤنٹ ہونا چاہیے۔ حکومت کو کبھی نہ کبھی یہ فیصلے کرنے پڑیں گے اور اداروں کو مضبوط کرنا پڑے گا۔ خان صاحب 20سال سے کہہ رہے ہیں کہ اداروں کو مضبوط کرو، اب وہ وزیراعظم ہیں، اپنی کہی ہوئی باتوں پر عمل کریں۔

تازہ ترین