• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں کراچی سے تقریباً 400کلومیٹر دور رومانوی اور سحر انگیز سرزمین صحرائے ’’تھر ‘‘جانے کا اتفاق ہوا،اسےدیکھنے کا ’’تھِرل‘‘ تو عرصہ دراز سے تھا ہی لیکن وہاں ہونے والی خشک سالی،خوراک و صحت کی ناگفتہ بہ صورت حال کی دردناک خبروں سے ذہن کے کسی گوشے میں اس خطے کی رومانیت کہیں کھو سی گئی تھی۔ تقریباًسات گھنٹے کا سفر اسی ادھیڑ بن میں گزراکہ وہاں کیسی صورت حال کا سامنا ہوگایا وہاں ہماری کس قسم کی مدد درکار ہوگی۔دوران سفرسندھ کے مختلف شہروں سے گزرتی ہوئی صاف ستھری ،بل کھاتی ہوئی نیشنل ہائی وے یہاں ہونے والے ترقیاتی کاموں کابلاشبہ راز افشاءکررہی تھی۔ ہمارا قیام اسلام کوٹ میں سندھ اینگروکول مائننگ کمپنی کی میزبانی میں تھا۔اس دوروزہ دورے کے پہلے روزاینگروانرجی لمیٹڈکے ڈائریکٹر مائننگ اینڈ آپریشن سید مرتضی اظہر رضوی نے تھر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں اورتھرکول پروجیکٹ کے حوالے سے تفصیل سے بتایا۔ان کی سیر حاصل گفت گو سے کم از کم ہمیں اتنا اندازہ ضرور ہوا کہ پورے تھر میں نہیں ،مگرکچھ رقبے پرترقیاتی کاموں کے لیے پرخلوص کاوشیں جاری ہیں۔

ریگستان میں بہار
سائنسی نمائش میں طلبا روجیکٹس کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے

سید مرتضی اظہر رضوی نے بریفنگ میں بتایا کہ’’پاکستان میں اس وقت کوئلے کے تقریباً 186 بلین ٹن کے ذخائر موجود ہیں جس میں سے 175 بلین ٹن کوئلہ صرف تھر پارکر میں ہے۔ یہ ذخائر سعودی عرب اور ایران کے تیل اور 2000 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے برابر ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت صحرائے تھروراجستھان کے علاقے پاکستان اور بھارت کا حصہ بنے،بھارت کے پاس ان ذخائر کا 10 فیصد حصہ چلا گیا۔ بھارت میں معدنی ذخائرکو استعمال میں لانے کے لئے 1948 میں ہی اسے نکالنا شروع کردیا تھا، جس سے بھارت کی اس وقت کی حکومت نے کوئلے سے 8 ہزار میگا واٹ کے پاور پلانٹ لگائے،تاہم اب یہ معدنی وسائل وہاںختم ہو چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ان ذخائر سے استفادہ نہ کیا جاسکا ۔ 1992 میں پانی کی تلاش کے دوران ایک امریکی کمپنی نے یہاں کھدائی کا کام شروع کیا،جس سے یہ انکشاف ہوا کہ اس خطے میں کوئلہ موجود ہے۔ جون 2016 میں اسلام کوٹ میں کمرشل آپریشن کا آغاز ہوا اور سندھ حکومت نے 54 فیصد شئیر کے ساتھ اس پروجیکٹ سے نجی کمپنی اور ایک چائینز کمپنی کے ساتھ کوئلہ نکالنے کا کام شروع کیا ۔سید مرتضی اظہر رضوی نے بتایا کہ یہاں 19 ہزار اسکوائر کلومیٹر پر مشتمل رقبے میں سے 9 ہزار اسکوائر کلومیٹر میں کوئلہ موجود ہے،جسے سندھ حکومت نے 13 بلاکس میں تقسیم کیا ہے۔اینگرو اور تھر فاؤنڈیشن حکومت کے ساتھ مل کراسلام کوٹ کے بلاک ’ٹو‘ میں ترقیاتی کام کررہی ہیں۔اس منصوبہ دو ارب ڈالر کی لاگت کا ہے جس میں سے 845 ملین ڈالر مائننگ پر خرچ ہو رہا ہے جب کہ 1.1 ملین ڈالر پاور پلانٹ پر خرچ کیا گیا ہے۔ 275 ملین ڈالر وفاق نے بھی خرچ کئے ہیں۔ یہ منصوبہ اپنے مقررہ وقت سے پانچ ماہ قبل ہی مکمل ہوجائے گا، جس سے 20 فیصد مقرر کردہ بجٹ میں بچت بھی ہوگی۔ اس وقت تھرکول منصوبہ اسیّ فیصد مکمل ہو چکا ہے اور کوئلہ اس وقت 160میٹر گہرائی میں موجود ہے ، مائننگ 148 میٹر تک ہو چکی ہے جبکہ ہدف 190 میٹر گہرائی تک ہے۔ مرتضی رضوی کے مطابق 38 لاکھ ٹن کوئلہ ایک سال میں نکالا جائے گا جس سے 660 میگا واٹ بجلی بنائی جائے گی۔ مقرر کردہ اہداف کے مطابق مئی 2019 میں 660 میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی، جون 2021 میں 1320 میگا واٹ جب کہ جون 2022 میں اس کی پیداوار 3960 میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔ جو بجلی اس وقت صارفین چودہ روپے فی یونٹ خرید رہے ہیں وہ مستقبل میں اپنے ہی ملک میں بننے والی بجلی سے پانچ سے چھ روپے پر آئے گی‘‘۔

ریگستان میں بہار
کوئلے کی کان

بعدازاں سندھ اینگروکول مائننگ کمپنی کے جنرل مینجر نصیر میمن نے تھر کے پسماندہ علاقے خصوصاً بلاک ٹو میں تھر فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر کیے جانے والے فلاحی کاموں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ’’پاکستان میں پہلی بار کسی منصوبے میںوہاں کے رہائشی افراد کوحکومت سندھ نے منصوبے سے مستفید کیا ہے،یعنی حکومت کے حصص میں سے 3 فی صداس منصوبے سے متاثر ہونے والے افراد کو فراہم کیا گیا ہے،اس طرح بلاک ٹو کے تھری باشندے اس منصوبے میں شئیر ہولڈر بن گئے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ sustainable Development Goals کےحصے کے طور پرفاؤنڈیشن تعلیم،صحت،ذریعہ معاش،صنفی مساوات،پانی اور خواتین کو بااختیار بنانے جیسے اہم شعبوں میں مستقل کام کررہی ہے‘‘۔

اس دورے کا ایک اہم مقصدنجی سیکٹر کی جانب سے تھر میں ہونے والی تعلیمی سرگرمیوں کامشاہدہ کرنا بھی تھا ،جس کے لیے تھر جیسے پسماندہ خطے میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیےدی داؤد فاؤنڈیشن اور تھر فاؤنڈیشن کے اشتراک سے منعقد کی جانے والی دو روزہ سائنسی نمائش mangnifiscience کا انعقاد کیا گیاتھا،نمائش میں تھر کے مختلف سرکاری و نجی اسکول کے طلبا و طالبات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ماہرین تعلیم،ماحولیاتی ماہرین اور کاروباری افراد نے بھی نمائش میں شرکت کی۔نمائش میں طلبا کے 70سے زائد پروجیکٹس رکھے گئے تھے ، اساتذہ کی زیرنگرانی تھر کے طلبا کوسائنسی پروجیکٹس نہ صرف سمجھائے گئے بلکہ نمائش کے شرکاء کے سامنے ادائیگی کےعملی مظاہرے بھی پیش کیے گئے۔نمائش میں تھر کے دیگر اسکولوں کے بچوں نے بھی اپنے پروجیکٹس بھی پیش کیے، جن میں جانوروں کے فضلے سے بائیو گیس کی تیاری،ایکو سسٹم اور سیمنٹ کی تیاری کے مختلف مراحل نمایاں کیے گئے تھے۔بچوں نے مقامی زبان اور اردو زبان میں نہایت اعتماد کے ساتھ سائنسی پروجیکٹس کو بیان کیا۔ آپٹیکل الوژن کے مظاہروں میں بچوں نے زیادہ دل چسپی لی،جہاں ٹاکنگ ہیڈ الوژن میں ایک طرف انہوں ایک طالب علم کے سر کو بغیر دھڑ کے باتیں کرتے ہوئے دیکھاتو دوسری جانب انفینٹی باکس میں اپنے ہی عکس کو مختلف زاویوں سے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ صحت کی تھیم کے اسٹال پر بچوں نے انسانی جسم کے افعال کو سمجھنے میں دل چسپی لی۔فورس اور موشن کی تھیم میں نوجوان سائنس دانوں نے ربر بینڈ اور تختوں کی مدد سے اسٹرکچر کھڑے کیے،جبکہ کچھ نے پی وی سی پائپس کے ذریعے پگ ڈنڈیاں اور راستے بنانے کا عملی مظاہرہ کیا۔

سائنسی نمائش کے حوالے سے داؤد فاؤنڈیشن کے جنرل مینیجر سید فصیح الدین بیابانی کا کہنا تھا کہدی داؤد فاؤنڈیشن 1961میں قائم ہوئی،جس کا مقصد پاکستان میں تعلیم کافروغ ہے۔اس حوالے سےٹی ڈی ایف کے بیشتر منصوبے کام یابی سے جاری ہیں۔2016میں پہلی مرتبہ کراچی میں mangnifiscience سائنسی نمائش کا انعقاد کیاگیا،جس میںچالیس ہزار طلبہ نے حصہ لیا تھا،اسی طرح 2017میں پچاس ہزار سے زائد پاکستان کے مختلف شہروں کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے طلبانے حصہ لیا تھا۔جب ہم نے پہلی مرتبہ اس نمائش کا انعقاد کیا تھا تو اسکول کی بچیوں نے نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ نمائش کے شرکاء کو سائنسی پروجیکٹس تفصیل سے سمجھائے۔ یہ نمائش ملکی سطح پر غیر رسمی طریقے سے سائنسی خواندگی کو جدید انداز سے فروغ دینے کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ تھر کے اساتذہ اور طلبا سائنسی تعلیم کے حوالے سے پرجوش ہیں۔تھرپار کر کے طلبا کو دیگر شہروں میں موجود اپنے ہم عصروں کی طرح سائنس کے تجربوں سے مستفید اور آگاہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس موقعے پر تھر فاؤنڈیشن کی مینیجر ایجوکیشن سبین شاہ نے کہا کہ ہم نے مستقل ترقی کے مقصد کو اپنایا ہے،جو اہم شعبوں میں بڑے پیمانے پر اپنے اثرات مرتب کررہی ہے۔یہ نمائش تھرپارکر میںبچوں اور طلبا کے لیےفعال تعلیمی نصاب کے حصول کے لیےہمارے مقصد سے ہم آہنگ ہے۔اگرچہ تھر انسانی ترقی کے انڈیکس میں نہایت پیچھے ہے،لیکن ہمیں تھر کے طلبا کی صلاحیتوں پر مکمل یقین ہے‘‘۔

تھر پاکستان کا سب سے غریب، شرح اموات میں پہلے اور قحط سالی کا شکار ہونے والا سب سے بڑا خطہ ہے۔ کوئلے کی دولت سے مالا مال یہ ریگستان ایک جانب پاکستان کی قسمت بدلنے پر کام کر رہا ہے ، وہیں کچھ فاصلوں پر بنے گاؤں کے رہائشی قحط سالی کے سبب نقل مکانی کر نے پر مجبور ہیں تو اسپتالوں میں سہولیات کم ہونے کے سبب اپنے بچوں کو مرتا بھی دیکھ رہی ہیں۔کوئلے کے ذخائر کے سبب تھر بلاک ’ٹو‘میں تو ترقیاتی کام اطمینان بخش ہیں لیکن تھرکا ایک بڑا حصہ آج بھی سرکاری و نجی سیکٹر کی توجہ کا طالب ہے۔

مجبوری بن گئی چیلنج!! تھر کی رانی اور فرزانہ،ٹرک ڈرائیور خواتین

ترقیاتی کاموں میں سندھ اینگروکول مائننگ کمپنی کا اہم منصوبہ ’’ویمن ڈمپ ٹرک ڈرائیور پروگرام‘‘بھی ہے ،جس کا مقصد تھر کی خواتین کو باعزت روزگار فراہم کر کے بااختیار بنانا ہے۔اس پروگرام کو ناصرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی سراہا گیا ہے۔ ’’ویمن ڈمپ ٹرک ڈرائیور پروگرام‘‘کے تحت تھر کی 26خواتین کو 60 ٹن وزنی ڈمپ ٹرک چلانے کی تربیت دی جارہی ہے۔ 

ریگستان میں بہار
فرزانہ

جب ہم ڈمپ ٹرک ٹریننگ کے آفس پہنچے تو وہاں مخصوص تھری ملبوسات زیب تن کی ہوئی دھان پان سی تھری خواتین چہرے پر عزم و حوصلہ لیے وہاں موجود تھیں اور خاتون ٹرینر سے ٹرک ڈرائیونگ کی تربیت حاصل کررہی تھیں۔ہم نے ٹرینر مہ وش سے اجازت لے کر چند خواتین سے بات کرنا چاہی۔اعتماد سے بھرپور گفت گو کرتے ہوئے ان خواتین نے یہاں تک پہنچنے کا احوال سنایا۔ننگرپارکر سے چھ ماہ کے بچے کے ساتھ آئی ہوئی فرزانہ نے بتایا کہ’’میں یہاں روز ٹرک ڈرائیونگ سیکھنے آتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں ٹرک چلانا ضرور سیکھ جاؤں گی۔میں نے آٹھویں کلاس تک تعلیم حاصل کی ہے۔میرے چھ بچے ہیں۔شوہر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا ان کی ٹانگ میں راڈ لگی ہے وہ ملازمت نہیں کرتے،گھر میں فاقے پڑنے لگے تھے۔کچھ سلائی کڑھائی کر کے بچوں کا پیٹ پال رہی تھی لیکن جب مجھے پتا چلا کہ کوئلہ نکالنے والی کمپنی مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی ملازمت دے رہی ہے تو میں نے سوچا کچھ اچھے پیسے مل جائیں گے،لہذا میں نے ڈرائیونگ سیکھنا چاہی‘‘۔

آپ کو اپنے خاندان سے اجازت مل گئی تھی؟ فرزانہ نے کہا،’’میری ہم سائی یہاں سے ڈمپر چلانا سیکھ چکی ہے اور اسے یہاں اچھے پیسوں پر ملازمت بھی مل گئی تھی اس نے بتایا یہاں ماحول بہت اچھا ہے۔اس لیے میرے شوہر نے مجھے بھی یہاں بھیج دیا‘‘۔آپ کو کوئلے کی کان میں ٹرک چلاتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوتا؟ اس سوال کے جواب میں فرزانہ نے کہا،’’نہیں بالکل خوف نہیں ہوتا۔اگر خوف زدہ ہوجاؤں گی تو سیکھ نہیں سکوں گی اور مجھے روزگار نہیں مل سکے گا۔دراصل یہ ہماری مجبوری ہے ،اس کام کے پیسے اچھے ملیں گے اور ماحول بھی بہت اچھا ہے‘‘۔قریب ہی بیٹھی ایک اور خاتون ڈرائیور رانی نے گفت گو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ’’ میرا شوہر ٹی بی کا مریض ہے ،بے روزگار ہے،میرے سات بچے ہیں۔مجھے بھی کوئی کام نہیں مل رہا تھا،سلائی کڑھائی سے بھی گھر کا خرچ پورا نہیں ہوتا۔یہاں اچھا موقع ملا ہے ہمیں کہ ڈرائیونگ سیکھ کر گھر چلا سکیں۔ بہت مشکل سے گزارا ہوتا ہے،تھر میں روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔ 

ریگستان میں بہار
رانی

ہمارے پاس جانوروں تک کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا اپنا یا بچوں کا پیٹ کیسے پالیں؟کوئلے کی کان کا ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ یہاں روزگار مل گیا‘‘۔ دوران گفت گو خاتون ٹرینرمہ وش سے ’’ویمن ڈمپ ٹرک ڈرائیور پروگرام‘‘کے حوالے سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ،’’ہم نے جب یہ پروگرام شروع کیا تو آغاز میں 26خواتین کا گروپ تھا جسے ہم نے تربیت دینا شروع کی۔انہیں ہم نے دو گروپوں میں تقسیم کیا تھا،پہلے تین مہینے ہم نے تیرہ خواتین کو ٹرک چلانے کی تربیت دی،جو مکمل تربیت لے کر پاس آؤٹ کرچکی ہیں۔باقی تیرہ خواتین زیرتربیت ہیں۔تربیت یافتہ خواتین ڈرائیورز کو ہر ماہ چالیس ہزار تنخواہ دی جارہی ہے ا سی طرح ان خواتین کے ساتھ ان کے گھر کے ایک مرد کو بھی کول مائن پروجیکٹ میں روزگار بھی دیا جاتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ دوردراز سے آنے والی خواتین کو کیا سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں؟مہ وش کا کہنا تھا کہ’’ ان خواتین کودوپہرکاکھانا اور پک اینڈ ڈراپ سروس دی جاتی ہے،اس کے علاوہ چوں کہ ان کے بچے شیر خوار ہیں لہذابچوں کے لیے ’’ڈے کئیر یونٹ‘‘کا منصوبہ بھی تکمیل کے مراحل میں ہے‘‘۔ 

تازہ ترین