• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکتوبر کی آٹھ تاریخ تھی ہفتے کا دن تھا صبح آٹھ بج کر اننچاس منٹ کا وقت ہوا چاہتا تھا سب کچھ نارمل تھا ملازمت پیشہ لوگ دفاتر کی جانب رواں دواں تھے ، ننھے منے بچے اسکول میں حصول تعلیم کے لئے پہنچ چکے تھے ہر چیز اپنے حساب سے ہورہی تھی اور ایک قیامت تھی جسے قدرت نے پاکستانی اور کشمیر ی قوم پر مسلط کرنا تھا جس کا وقت آٹھ بج کر پچاس منٹ پر طے تھا اور اب سے صرف ایک منٹ بعد وہ قیامت پاکستانی کشمیر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں ایک خطرناک زلزلے کی صورت میں آنی تھی ، آٹھ بج کر پچاس منٹ ہوئے اور زمین نے لرزنا شروع کیا ، آہستہ آہستہ شروع ہونے والے زلزلے نے روز مرہ کی زندگی گزارنے والے لوگوں کو کچھ حیران کیا لیکن جیسے جیسے وقت سیکنڈوں میں آگے بڑھتا رہا لوگوں کی حیرانی اب پریشانی میں بدل چکی تھی زلزلے کی شدت اب بڑھ کر سات اعشاریہ چھ تک پہنچ چکی تھی کشمیر میںبنے بغیر بنیادوں کے مٹی اور پتھر کے گھر اب اپنی جگہ چھوڑنا شروع ہوگئے تھے ، شہریوں نے جان بچانے کے لئے پناہ کی تلاش شروع کردی تھی اور پھر کسی کو پنا ہ نہ ملی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے اسکول کی عمارت کے نیچے ، دفاتر میں کام کرنے والے دفاتر کے نیچے اور مزدور پہاڑی تودوں میں دب کر جان کی بازی ہار گئے، یوں اس قدرتی آفت نے چندمنٹوںمیں ہنستے بستے شہروں اور گائوں کو قبرستان میں تبدیل کردیا تھا ،قیامت صغریٰ کا منظر تھا جو بچ گئے تھے وہ اپنے پیاروں کی تلا ش میں تھے اور جو زخمی ہوگئے تھے وہ کسی سہارے کی تلاش میں تھے حکومت بے بس تھی جس کے پاس یہ معلومات بھی نہ تھیں کہ وہ جان سکے کہ کشمیر اور اس کے مضافات میں کیا قیامت ٹوٹ چکی ہے جبکہ نہ ہی وہ وسائل تھے کہ جن کی بنیاد پر فوری طور پر اپنے پیاروں کی مدد کو پہنچا جاسکتا ،عام شہریوں کے ساتھ ساتھ ہمارے سینکڑوں وطن کے محافظ بھی اپنی اپنی پوسٹوں پر منوں مٹی تلے شہادت کی منزل کوپہنچے اس خطرناک زلزلے کے نتیجے میں پاکستان اور کشمیر عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس زلزلے کے نتیجے میں ستاسی ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ،جبکہ زخمی ہونے والے شہریوں کی تعداد ایک لاکھ اڑتیس ہزار تک پہنچ گئی تھی جبکہ پینتیس لاکھ افراد بے گھر ہوگئے تھے ہلاک ہونے والوں میں انیس ہزار بچے بھی شامل تھے جن کی اکثریت اسکول کی عمارتوں کے نیچے دب کر ہلاک ہوئی تھی ،مجموعی طور پر پانچ لاکھ خاندان اس تباہی کا نشانہ بنے جبکہ جانور بھی اس آفت کا نشانہ بنے اس زلزلے میں ہلاک ہونے والے جانوروں کی تعداد ڈھائی لاکھ تک ریکارڈ کی گئی ہے ۔ امداد پہنچانا انتہائی مشکل کام تھا پھر بھی عالمی اداروں کے ذریعے پاکستان کو پانچ أرب ڈالر سے زائد امداد حاصل ہوئی جس سے لوگوں کے لئے امداد ی پروگرام شروع کیا گیا ، اس آٹھ اکتوبرکو کشمیر میں آنے والے زلزلے کو پورے دس سال گزر چکے ہیں لیکن افسوسناک خبر یہ آئی ہے کہ آج بھی کشمیر میں تعمیر نو کا کام مکمل نہیں کیا جاسکا اور سات سو سے زائد منصوبے ادھورے ہیں یا ان پر کام ہی شروع نہیں ہوسکا ہے امید ہے عمران خان کی حکومت کشمیرمیں اپنے بھائیوں کی کفالت اور بحالی کے منصوبوں پر جو منصوبے ادھورے ہیں انھیں نہ صرف مکمل کرے گی بلکہ غریب اور پہاڑی علاقوں میں مضبوط مکان بنانے کے لئے بھی منصوبے پیش کرے گی تاکہ مستقبل میں کسی بھی آفت کی صورت میں ہماری قوم کے یہ غریب جانی و مالی نقصان سے بچ سکیں ۔

کشمیر کے زلزلے کے نتاظر میں اگر جاپان میں دوہزار گیارہ میں آنے والے خطرناک زلزلے اور سونامی پر نظر ڈالیں تو بہت کچھ سیکھنے کوملے گا ،گیارہ مارچ دو ہزار گیارہ کو جاپان میں نو اعشاریہ ایک شدت کا زلزلہ آیا یہ زلزلہ جاپان کے ساحلی شہروں فکوشیما اور اس کے مضافات میں ریکارڈ کیا گیا تھاجس کے باعث جاپان کے سمندر سے ایک خطرناک سونامی بلند ہوا جس نے جاپان کے ہنستے بستے کئی شہروں کو ڈبو کر رکھ دیا جس میں سب سے اہم شہر فکوشیما اور ایواتے تھے جبکہ ٹوکیو میں بھی سات اعشاریہ تین شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا اس خطرناک زلزلے اور سونامی سے جاپان میں پندرہ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ ڈھائی ہزار افراد تاحال لاپتہ ہیں جبکہ زلزلے کے سبب لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے اور تاحال پچاس ہزار افراد عارضی رہائش گاہوں میں قیام پذیر ہیں،سرکاری اعداد وشمار کے مطابق جاپان میں آنے والے زلزلے سے ایک لاکھ بیس ہزار عمارتیں مکمل طورپر تباہ ہوئی تھیں جبکہ دو لاکھ اٹھتر ہزار عمارتیں جزوی طور پر تباہ ہوئی تھیں ،جبکہ اعداد و شمار کے مطابق جاپان کو زلزلے اور سونامی سے دو سو أرب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ جاپانی حکومت نے زلزلے اور سونامی سے تباہ ہونیو الے علاقوں کی تعمیر نوع کے لئے دو سو پینتیس أرب ڈالر خرچ کئے ہیں جبکہ جاپان کو سب سے زیادہ نقصان ایٹمی پاور پلانٹ کی تباہی کی صورت میں اٹھانا پڑا جس کے سبب فکوشیما میں واقع ایٹمی پاور پلانٹ سے تابکاری کا اخراج بھی شروع ہوا جس سے ماحول کو خطرناک نقصان پہنچا تاہم جاپان کی حکومت کی جانب سے حفاظتی اقدامات اور ماضی میں جاپان میں آنے والے زلزلوں اور تباہی کے سبب جاپانی عوام کے حفاظتی اقدامات کے باعث اتنے خطرناک زلزلے اور سونامی سے ہلاکتیں کم ہوئیں کیونکہ جاپان میں گھروں کی تعمیر کے لئے جاپانی حکومت نے جو معیار لازمی قرار دیا ہے اس میں کم از کم سات اعشاریہ پانچ کی شدت کا زلزلہ سہنے کی صلاحیت ہوتی ہے جبکہ جاپان میں اسکول کے بچوں سے لیکر دفاتر تک لوگوں کو زلزلے کی صورت میں فوری بچائو اور حفاظتی تدابیر کی تربیت فراہم کی جاتی ہے ،جاپان کے محکمہ میٹرولوجیکل ایجنسی کی جانب سے زلزلے سے قبل وارننگ جاری کردی جاتی ہے جو لوگوں کو ان کے موبائل فون ٹی وی اور ریلوے سمیت ہر محکمہ میں دے دی جاتی ہے جس سے احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں ،ہر سال آٹھ اکتوبر پاکستانی قوم کو یہ باور کراتاہے کہ اچھے وقت میں برے وقت کی تیاری رکھنا عقل مندہونے کی نشانی ہے ورنہ برے وقت میں صرف دنیا سے امداد کی اپیل ہی کی جاسکتی ہے جس سے اب ہمیں جان چھڑانی ہوگی (کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین