نذیر ڈھوکی 27اکتوبر کو انہی صفحات پر جناب اعزاز سید کا مضمون’’زرداری پیپلزپارٹی پر بھاری‘‘ شائع ہوا۔جس میں اُنہوں نے پی پی پی کے صدر آصف علی زرداری کے حوالے سے کچھ باتیں تحریر کی تھیں، جن کی وضاحت ضروری ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کا کارکن ہونےکے ناطے میں بخوبی جانتا ہوں کہ گزشتہ 31 سال سے، جب سے آصف علی زرداری کی محترمہ بینظیر بھٹو شہید سے شادی ہوئی آصف علی زرداری کی کردار کشی کی مہم ایک روز بھی نہیں رکی۔ میں ان کرداروں سے بھی واقف ہوں جن کے ذمہ یہ ڈیوٹی تھی کہ آصف علی زرداری کے خلاف کہانی گھڑیں۔ اب آتے ہیں فاضل کالم نگار کے مضمون کی طرف۔ سوال یہ ہے کہ آصف علی زرداری کو کس الزام کے تحت گرفتار کیا جاتا؟ جس کی تیاری مکمل کی گئی تھی جس کی ذمہ داری ایف آئی اے کے سربراہ بشیر میمن کو دی گئی تھی؟ فاضل کالم نگار کے مطابق آصف علی زرداری کیخلاف جعلی اکائونٹس کھولنے اور غیر قانونی طور پر اُن میں بھاری رقم رکھنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ جعلی اکائونٹس ڈرامہ تاحال قسط وار جاری ہے تاہم یہ تحقیقات ابھی تک سامنے نہیں آئیں کہ پنجاب کے شہروں اور کے پی میں منظر عام پر لائے جانے والے اکائونٹس کس بینک میں اور کس کے تھے؟ قارئین کو یاد ہوگا کہ 90کا زمانہ جب آصف علی زرداری پر ایک شخص کی ٹانگ پر بم باندھنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ وہ شخص بم کے ساتھ بینک بھی گیا ۔جس نے اپنا پیسہ نکالا اور آصف علی زرداری کے حوالے کیا اور پھر ٹانگ پر بم باندھے وہ جہاز میں سوار ہو کر ملک سے باہر چلا گیا۔ پھر اسے ہمدردی کے طور پر حکومت پنجاب نے مفت پلاٹ بھی عطا کیا۔ 1996ء میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی حکومت کی برطرفی کے بعد گورنر ہائوس لاہور سے آصف علی زرداری کو گرفتار کیا جاتا ہے ، دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آصف علی زرداری سے 70من سونا اور 70کروڑ روپے جو ایک بریف کیس میں تھے درآمد کئے گئے۔ معاملہ یہاں ختم نہیںہوتا۔ لاہور کے تھانہ قلعہ گجرسنگھ میں منشیات کا جھوٹا مقدمہ بھی درج کیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں اینٹی نارکوٹیکس نے آصف علی زرداری کے خلاف منشیات کا جھوٹا مقدمہ داخل کرنے سے اس بنیاد پر انکار کیا تھا کہ جھوٹا مقدمہ داخل کرنےسے اینٹی نارکوٹیکس فورس کی ساکھ خراب ہوگی۔ سابق وزیر داخلہ اور وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین اس امر کا اعتراف کر چکے ہیں کہ آصف علی زرداری پر منشیات کا مقدمہ بنانے کے لئے انہیں کہا گیا تھا مگر انہوں نے انکار کر دیا اور یہ بات بحیثیت وزیراعظم وہ ریکارڈ پر لائے تھے۔ دوران قید آصف علی زرداری پر مزید مقدمات درج کئے گئے جب عدالتیں آصف علی زرداری کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتیں تو کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر مزید کو ئی مقدمہ دائر کیا جاتا ، نہ چھٹی کا دن دیکھا جاتا اور نہ ہی وقت۔لاہور ہائی کورٹ کی احتساب عدالت کے جج کے ساتھ وہ کردار بھی بے نقاب ہو چکے ہیں جو انہیں فون کرکے یہ فرمائش کر رہے تھے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور آصف علی زرداری کو جلد از جلد اور سخت سے سخت سزائیں دیں، جرمانہ بھی ہو اور ان کی ملکیت بھی ضبط کرنے کے احکامات بھی جاری کئے۔ جہاں تک صدارتی انتخابات میں اعتزاز احسن کو نامزد کرنے کی بات کا تعلق ہے تو یہ بحیثیت صدر پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز ان کا یہ حق اور اختیار تھا کہ وہ اپنی پارٹی کی طرف سے صدارت کے منصب کےلئے امیدوار نامزد کریں۔ اعتزاز احسن کے صدارتی امیدوار نامزد کرنے کے خلاف پیپلزپارٹی کے مخالفین کے پاس صرف یہ بھونڈی دلیل ہے کہ آصف علی زرداری نے مجبوری کے تحت اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار نامزد کیا جس کی وجہ سے اپوزیشن کا صدر منتخب نہ ہو سکا۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب کچھ آصف علی زرداری گرفتاری سے بچنے کے لئے کر رہے تھے تو اس کے بدلے آصف علی زرداری کو کیا ریلیف ملا؟ جعلی اکائونٹس کے حوالے سے قسط وار ڈراموں کا تسلسل جاری رہا۔ ہے کوئی انصاف پسند جو پوچھے کہ آپ کو کہاں سے الہام ہوا کہ آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے کی منصوبہ بندی مکمل تھی؟ فاضل کالم نگار لکھتے ہیں کہ آج کل آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور شدید مشکلات میں ہیں۔ نظریات کی بنیاد پر آصف علی زرداری نے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی تھی۔ اب اس ترمیم کے بعض بنیادی نکات کی تنسیخ کے ذریعے ہی آصف علی زرداری کی جاں بخشی کی باتیں ہورہی ہیں۔ آصف علی زرداری ستمبر میں تو بچ گئے مگر کیا آئندہ مارچ تک بھی بچ پائیں گے؟ اچھا ہوا کہ آخر کارفاضل کالم نگار نے دانستہ طور پر اس حقیقت کا اعتراف کر لیا ہے کہ اصل مسئلہ اٹھارہویں ترمیم کا ہے جو آصف علی زرداری کا ناقابل معافی جرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف طوطا کہانیاں ڈرامائی انداز میں پیش کی جا رہی ہیں۔ مارچ تک باقی کونسے ڈرامے اسٹیج ہوں گے ،موصوف کالم نویس ان سرگوشیوں کو بھی طشت از بام کرتے؟ یاد آیا آصف علی زرداری نے سوات سے پاکستان کا پرچم اتارنے والوں کو ماربھگا کر وہاں دوبارہ قومی پرچم سربلند اور ریاست کی رِٹ بحال کی تھی۔ اس وقت بھی ان کے مخالفین ٹسوے بہا بہا کر اپنا دامن بھگو رہے تھے۔ رہی بات پیپلزپارٹی کی تو جیالوں کو اس بات پر اطمینان ہے کہ ان کے قائد آصف علی زرداری اپنے نظریے پر ثابت قدم اور اصولوں پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ آصف علی زرداری پیپلز پارٹی پر نہیں بلکہ بھٹو مخالفین پر بھاری ہیں۔