• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ملک میں لوگوں کو خواب دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ایک مرتبہ ایک سیانے سے ہم بیوقوفوں نے پوچھا تھا:لوگ خواب کیوں دیکھتے ہیں؟سیانے نے جواب دیتے ہوئے کہا تھا:جو لوگ کچھ نہیں دیکھتے وہ خواب دیکھتے ہیں۔ سیانے کا جواب سن کر ہم بیوقوف کچھ کچھ سیانے ہو گئے تھے۔ خوابوں کے حوالے سے بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں آنے لگی تھیں۔ تب ہم نے محسوس کیا تھا کہ ہماری سمجھ اس قدر ناقص نہ تھی جتنا کہ ہم اپنی سمجھ کو ناقص سمجھتے تھے۔ فلسفی صرف عقلمندوں کے درمیان پیدا نہیں ہوتے۔ ہم احمقوں کے درمیان بھی فلسفی پیدا ہوتے ہیں۔ امکانات روشن تب ہوتے ہیں جب ایک بیوقوف کا واسطہ کسی سیانے سے پڑتا ہے۔ سیانے سے ہم کلام ہونے کے بعد ہم ناقص سوچ رکھنے والے سیانے بن جاتے ہیں۔ ہمارے درمیان ایک دو لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو فلسفی بن جاتے ہیں اور فلسفیانہ باتیں کرنے لگتے ہیں۔ میں آپ کو ایک دیسی فلسفی کا قول سناتا ہوں۔ اچھا قول ہے۔ انٹرنیٹ پر وائرل ہو چکا ہے۔اس لیے آپ کو سنا رہا ہوں۔ میں نے اس قول پر عمل کرکے دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں خوش رہتا ہوں اور خرم بھی رہتا ہوں۔ اس قول پر عمل کرنے سے آپ بھی میری طرح خوش و خرم رہ سکتے ہیں۔ قول سنیے:خوش رہنا چاہتے ہو، تو سوچنا چھوڑ دو۔یہ میرا ذاتی اور مخفی تجربہ ہے۔ اس قول پر عمل کرنے سے میں مستفید ہو چکا ہوں۔ اس قول پر عمل کرنے سے آپ بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ بس،سوچنا چھوڑ دیجیے۔ میں نے جب تک سوچنا نہیں چھوڑا تھا تب تک میں بہت دکھی رہتا تھا۔ غمگین گانے گایا کرتا تھا:تیری دنیا میں دل لگتا نہیں،مجھ کو اے مالک اٹھا لے۔ میں چھوٹی چھوٹی اور نظرانداز کرنے جیسی باتوں پر سوچتا تھا۔ کڑھتا تھا۔پریشان رہتا تھا۔ دیواروں سے سر ٹکراتے ٹکراتے لہولہان ہو جاتا تھا۔معمولی باتوں پر میں سوچنے لگتا تھا اور پھر سر میں دھول ڈال کر،گریباں چاک کر کے بیابانوں کا رخ کرتا تھا ۔ایک مرتبہ اچانک ایک کلرک کی منہ پھٹ بیوی مر گئی۔ کچھ روز بعد کلرک کو بائیس گریڈ میں ترقی دے دی گئی۔ میں سوچتے سوچتے پاگل ہو گیا۔بیوی کی اچانک موت کا کلرک کی بائیس گریڈ میں ترقی سے کیا واسطہ تھا؟نیند آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ میں کھانا پینا بھول گیا۔ سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔ میں گلی کوچوں میں گاتا پھرتا تھا: تیری دنیا میں دل لگتا نہیں، مجھ کو اے مالک اٹھا لے۔ تب، ایسے میں کسی نے مجھے دیسی فلسفیانہ قول سے آگاہ کیا:خوش رہنا چاہتے ہو، تو سوچنا چھوڑ دو۔

اس دن سے میں نے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ بھاڑ میں جائے کلرک اور بھاڑ میں جائے اس کی منہ پھٹ بیوی۔ تب سے میں خوش رہتا ہوں اور خرم بھی رہتا ہوں۔ گاتا پھرتا ہوں: تیری دنیا میں اب بہت دل لگتا ہے مالک، مجھے مت اٹھانا۔ مجھے قیامت تک زندہ رکھنا اور موج مستی کرنے دینا۔ مانا کہ یہ دنیا فانی ہے، پھر بھی جانی پہچانی ہے۔ ابھی کچھ من مانی کرنی ہے۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لانی ہے۔ مانا کہ دنیا آنی فانی ہے، پھر بھی دلبر جانی ہے۔

بات بہت پرانی ہے۔ برصغیر کے بڑے برے دن تھے۔ چوریاں نہیں ہوتی تھیں۔ڈاکے نہیں پڑتے تھے۔ایسا بھی نہیں تھا کہ تب برصغیر میں صرف فرشتے رہتے تھے۔ کسی طرح سے برصغیر میں قدرت کے قانون کی نفی نہیں ہوتی تھی۔ قدرت کے قانون کے مطابق اندھیرا اور اجالا ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔ عروج اور زوال کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔تب برصغیر میں برائی ہوتی تھی تو بھلائی بھی ہوتی تھی۔ ناانصافی ہوتی تھی تو انصاف بھی ہوتا تھا۔کانٹے ہوتے تھے تو پھول بھی ہوتے تھے۔ قمار خانے ہوتے تھے تو کتب خانے بھی ہوتے تھے۔ ڈاکو ہوتے تھے تو پولیس والے بھی ہوتے تھے۔ چوریوں اور ڈکیتیوں کی نہ ہونے والی وارداتوں کا سبب پولیس کا نظام اور ان کی فرض شناسی نہ تھی۔ اس کا سب سے بڑا سبب تھا چوکیدار۔ محلوں اور گلی کوچوں سے لے کر بند بازاروں میں چوکیدار پہرہ دیتےتھے۔ہاتھ میں ان کے لمبی لاٹھی ہوتی تھی۔ دوسرے ہاتھ میں لالٹین ہوتی تھی۔ لاٹھی زمین پر مارتے تھے اور رات بھر چلّاتے پھرتے تھے:جاگتے رہو ۔جاگتے رہو۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب حکمراں انگریز ہندو اور مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان کے بٹوارے سے متعلق گفت و شنید کر رہے تھے۔ تب میں نہ تو بہت چھوٹا تھا اور نہ ہی بہت بڑا تھا۔ میں بس اتنا تھا کہ ہندوستان کے بٹوارے کی باتیں اور فریقین کے دلائل میری سمجھ میں آتے تھے۔ اس دور کی باتیں مجھے آج تک یاد ہیں۔بڑے بوڑھے ایک ہی موضوع پر مختلف زاویوں سے بولتے رہتے تھے۔انگریز نے ہندوستان چھوڑنے سے پہلے ہندوستان کو دولخت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایک حصّہ بڑا ہو گا اور دوسرا حصّہ چھوٹا ہو گا۔ ہندوستان کے چھوٹے حصّے پر برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ تھلگ ملک پاکستان بنے گا۔ پاکستان میں انصاف کا بول بالا ہو گا اور دشمن کا منہ کالا ہو گا۔شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پئیں گے۔ گائے ذبح کرنے پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہو گی۔ آپ جب چاہیں،جہاں چاہیں گائے کاٹ سکیں گے۔ آپ چاہیں تو فٹ پاتھ پر بھینس یا گائے ذبح کر سکیں گے۔آپ سڑک کے بیچوں بیچ گائے کے گلے پر چھری پھیر سکیں گے۔ آپ بیچ چوراہے پر گائے،بیل، بھینس اور بھینسے کو حلال کر سکیں گے۔ آپ پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہو گی۔ایسا ہو گا برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ تھلگ ملک پاکستان۔ ایک اسلامی ملک ہونے کے ناتے پاکستان میں تالا لگانے کا رواج نہیں ہو گا۔ لوگ گھروں، دفتروں اور دکانوں کے کواڑ بند نہیں کریں گے۔ آپ دروازوں پر تالا نہیں لگائیں گے۔ دفتر جاتے ہوئے آپ گھر کے دروازے پر تالا نہیں لگائیں گے۔ آپ دفتر اور دکان سے نماز پڑھنے کیلئے مسجد کا رخ کریں گے تو دفتر اور دکان کے دروازے کھلے چھوڑ جائیں گے۔ یہ تب کی باتیں ہیں جب چوکیدار ہمیں سونے نہیں دیتے تھے۔ اور رات بھر بلند آواز میں کہتے پھرتے تھے:جاگتے رہو۔چوکیدار نہ خود سوتے تھے اور نہ ہمیں سونے دیتے تھے۔ آپ جب تک سوتے نہیں،تب تک آپ خواب نہیں دیکھ سکتے۔ بٹوارے سے پہلے برصغیر کے مسلمان عجیب و غریب کیفیت سے گزر رہے تھے۔ چوکیدار انہیں سونے نہیں دیتے تھے۔ اس لیے وہ خواب نہیں دیکھتے تھے۔ چونکہ چوکیدار خود بھی رات رات بھر جاگتے رہتے تھے، اس لیے وہ بھی خواب نہیں دیکھتے تھے۔ تب ہم سب جاگتے رہتے تھے اور مزیدار خیالی پلائو پکاتے رہتے تھے۔ اب جا کر پتہ چلا ہے کہ تب ہم خیالوں میں افغانی پلائو پکایا کرتے تھے۔

تازہ ترین