• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حواس خمسہ میں جو نہ آئے کیا اس کا وجود ممکن ہے؟ اگر ہم نے املی نہیں کھائی تو اسے دیکھ کر منہ میں پانی بھر نہیں آئے گا۔ پھر آج کے دور میں یہ سوچنا بھی عافیت کا باعث ہے کہ مقتول کے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ وہ قاتل نہیں! ان دو خیالوں میں فاصلہ عدم اتفاق پر ختم ہوتا ہے لیکن ان پر مباحثہ کیا جا سکتا ہے تاہم عالمی سطح پر انسان دوست ادیبوں اور تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہو گیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام بنی نوع انسان کو بربادی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہندوستان کی معروف سماجی رہنما ارون دھتی رائے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئی کہتی ہیں کہ ”ہندوستان کی سرمایہ دارانہ ترقی کا یہ حال ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں بھوک، ننگ اور قرضوں سے تنگ آکر ڈیڑھ لاکھ کسانوں نے خود کشی کر لی“۔ اخبار گارجین میں ایک پینتیس سالہ نوجوان کہتا ہے کہ اس نے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے اگلے پینتیس سال کی خریداری کر لی ہے اور اب وہ مشکلات سے دوچار ہے اسی اخبارمیں ایک درمیانی عمر کے مرد کا کہنا ہے کہ دولت کی خاطر دوشیزاؤں نے اس قدر خوبصورت جسم بنا لئے ہیں کہ اب ہمیں اپنی بیویوں میں دلکشی نظر نہیں آتی۔ یہ تو معمولی جھلکیاں ہیں جس نظام کو عالمی اجارہ داروں نے گلوبلائزیشن کے تحت زندہ رکھا ہوا ہے۔ ماضی میں جائیں تو یہ خیال بھی سامنے آتا ہے کہ یورپین صنعتی انقلاب کے بعد جمہوریت کے وسیع پھیلاؤ نے سرمایہ داری نظام سے مل کر یورپین جاگیرداری نظام کو بحران میں مبتلا کر دیا تھا چنانچہ 17 ویں اور 19 ویں صدیوں میں یورپ اور شمالی امریکہ میں جمہوری انقلاب رونما ہوئے لیکن دوسری بڑی عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے عالمی تسلط کے خواب کے تحت دنیا کو سرد جنگ میں جھونکتے ہوئے پہلے تو جمہوریت کو فقط انتشار بنا کر دنیا بھر میں برآمد کیا اور آج یہ حشر ہو گیا ہے کہ صدر اوباما کو منتخب ہونے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑے چنانچہ جمہوریت ڈالرکی اسیر ہو گئی۔ پاکستان کے وردی اور وردی کے بغیر حکمران کب سے ڈالر کی عاشقی میں رسوا ہوتے چلے آرہے ہیں۔ایک طرف امریکہ نے آزاد دنیا کا نعرہ بلند کر کے واشنگٹن میں پروپیگنڈہ کا صدر دفتر بنا لیا۔ دوسری طرف مجبوراً ماسکو کو اشتراکیوں نے اپنا ہیڈ کواٹر چن لیا۔
امریکہ نے سرمایہ دارانہ نظریاتی گلوبلائزیشن کے ذریعے دنیا بھر کے آمروں کو کھل کر اسپانسر کیا، قوم پرست اور بائیں بازوں کے حامیوں کے تختے الٹے گئے۔ چلی میں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے وہاں کے منتخب رہنما آلیندے کو قتل کرا دیا۔ انڈونیشیا میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت خیزی کے بعد سوئیکارنو کو منظر سے ہٹا دیا گیا۔ بعد ازاں شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹایا گیا۔ امریکہ میں شاعر اور انگولا کے سابق صدر آگیسٹینو نیٹو کو امریکی مدد سے لڑنے والے گروپوں نے ہلاک کردیا ابتدائی دور میں جب آگیسٹینونیٹو کو فتح ہوئی تھی اور کئی برس صدر بھی رہے ان کی اس جدوجہد میں ”چی گیورا“ بھی ان کے شانہ بہ شانہ لڑے۔ اس تناظر میں فرانسیسی وجودی مارکسسٹ فلاسفر اور الجزائر کی آزادی کے حامی ژاں پال سارتر نے ایک مرتبہ کہا تھا ”ہم پہلی دنیا کے لوگ انسانی حقوق کی بڑی بات کرتے ہیں لیکن تیسری دنیا میں کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو اسے قتل کرا دیتے ہیں“۔ سرد جنگ کے دوران اور بعد میں بھی امریکہ اور اس کے حواریوں کا یہی رویہ رہا ان کی تازہ مثالیں بے نظیر بھٹو اور کرنل معمر قذافی ہیں۔امریکہ نے یہ بھی کیا کہ اولین مالدار دنیا کی ریاستوں کی اصل حقیقت کو چھپانے کے لئے سوانگ رچایا۔
اس بہروپ بھرنے کے تحت اس نے عالمی تسلط کی زیریں لہروں میں جمہوری سیاسی پروسیس کے ساتھ سول لبرٹی سوشل سیکورٹی اور محنت کشوں کو مراعات فراہم کر کے سرد جنگ کے دوران سابق سوویت یونین کے خلاف جنگوں اور معاشی ناکہ بندیوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ بظاہر امریکی اشتراکیت کی مرکزیت کو آمرانہ قرار دیتے رہے اور خود ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارپوریٹ پاور نے دولت کے ارتکاز کے ذریعے باقی دنیا اور اپنے کنزیومر کو قرضوں کے ذریعے ”گروی“ کرنا شروع کردیا۔ حالت یہ ہوگئی کہ دنیا میں گھڑے گھڑائے نوجوان پیدا کرنے کی ایسی تعلیم متعارف کرائی گئی جو ان کی مالیاتی ہیرا پھیریوں میں ساتھ دیں۔ چنانچہ بہت زیادہ تنخواہوں پر کام کرنے والے اسمارٹ منیجرز کی اصطلاح سامنے آئی جس نے ”ڈالر جمہوریت“ کے تحت دنیا بھر کے صارف کو لوٹنے کے منصوبے بنائے اور اسٹاک مارکیٹوں کو جوئے کے اڈے بنا ڈالے، حالانکہ صنعتی انقلاب کے اوائل ہی میں ایک معروف امریکی شاعر ایمرسن نے ایک جگہ لکھا تھا ”ہم کو گھڑے گھڑائے نقلی آدمیوں کی ضرورت نہیں جو کسی پیشہ ورانہ کام کے لائق نہ ہوں بلکہ کچھ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنی قوت ارادی کے بل پر کسی بھی کام میں ہاتھ ڈال سکتے ہوں، دنیا میں جو بہترین کارنامے وقوع پذیر ہوئے یعنی طباع و دراک لوگوں کے کارنامے۔ جن پر کوئی لاگت نہیں آئی اور نہ ہی ان کی کبھی کوئی قیمت ادا کی گئی اور نہ ہی ان کے لئے کو ئی مشقت اٹھائی گئی بلکہ یہ تو فکر کے بے ساختہ دھارے ہیں۔ شیکسپیئر نے ”ہیملٹ“ اتنی ہی آسانی سے لکھ ڈالا تھا جتنی آسانی سے کوئی پرندہ اپنا گھونسلا بنا لیتا ہے۔ بڑی بڑی نظمیں بغیر کسی توجہ کے سوتے جاگتے لکھی گئی ہیں، عظیم مصوروں نے حصول مسرت کے لئے تصویریں بنائیں اور انہیں یہ خبر تک نہ ہوئی کہ ان کی شخصیت نے ”خیر“ کو جنم دیا ہے“۔ تاریخ گواہ ہے کہ سامراجی عزائم رکھنے والے طالع آزماؤں نے ”خیر“ کی بات کب سنی۔ شکاگو معاشی کلب نے چند عالمی بڑی ریاستوں کو باور کرایا کہ جنہیں ہم عیار ریاستیں سمجھتے ہیں ان پر حملہ کر دینا چاہئے۔ ابتدا میں عراق، سربیا، ہیٹی اور بعد میں افغانستان کو شامل کردیا گیا۔ ٹونی بلیئر نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ ”ایسی تمام ریاستیں جو اقلیت کے بل بوتے پر چل رہی ہیں ان کو ختم کر دینا چاہئے“ لیکن ٹونی بلیئر نے اپنے بڑے شراکت دار امریکہ کو نہیں بتایا کہ مٹھی بھر دس فیصد ساہو کار و اجارہ دار دنیا اور امریکہ کی73 فیصد دولت پر قابض ہیں اور ان کی ڈالر جمہوریت کے کامیاب امیدوار ان عالمی اجارہ داروں کی مالیاتی مدد سے منتخب ہوئے۔ ایک طرح سے غیر قانونی ذرائع سے بننے والی حکومت بھی ”ڈی فیکٹو“ ہے۔ عالمی ٹھگ لوگوں کو ابہام میں ڈال کر ایک فرد ایک ووٹ کی جمہوریت پر پردہ ڈال کرتلخ حقائق کو ڈالر جمہوریت کے آہنی پردے میں چھپاتے ہیں۔ اس بارے میں معروف لکھاری وسیم پاف لکھتے ہیں ”سیاسی کارکن اور دانشور مزاحمت کر رہے ہیں اور یہ پیغام امریکی عوام تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ دس بڑی کارپوریشنز 50 فیصد ملک کی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو کنٹرول کرتی ہیں۔ یہ بعید نہیں کہ امریکی اصلاح پسند ایک دن اقوام متحدہ سے درخواست کریں کہ امریکی سیاست اور انتخاب کا کھلے عام احتساب کرے۔
یہ نہیں بتایا جاتا کہ روزانہ 200/ارب ڈالر کا جو اسٹاک مارکیٹوں کے ذریعے جوا کھیلا جاتا ہے وہ کن کے خزانوں میں جاتا ہے جبکہ دنیا میں بھوکوں کی تعداد بھیانک ہو گئی ہے، صاف ظاہر ہے کہ ڈالر جمہوریت کا مقصد بھی یہی ہے۔ امریکی تجزیہ نگار ایڈورڈ ایس ہرمین اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ”گلوبلائزیشن موجودہ عشروں میں کبھی جمہوریت کا انتخاب نہیں تھی اور نہ ہی اس کا انتخاب دنیا کے لوگوں کی مرضی سے ہوا۔ یہ عالمی اجارہ داروں کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، اس کی تمام حکمت عملیاں منافع بڑھانے کے لئے ہیں“۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مقصد بھی یہی ہے کہ کمزور ریاستوں کو مزید کمزور کر کے ان کے وسائل کو ہڑپ کیا جائے، محنت کشوں کے ضوابط کو ختم کیا جائے اور مقبول عام حکومت کے ریگولیشنز کو ڈی ریگولیٹ کیا جائے۔ پراکسی نج کاری کر کے قومی اثاثوں پر کاغذی کرنسی اور بے روزگاری کے عوض اثاثوں پر قبضہ کیا جائے۔ عالمی سرمائے کو جگہ جگہ پارک کر کے اسٹاک مارکیٹوں کے ذریعے لوٹ مار کر کے دوسرے ملکوں پر یلغار کی جائے۔ اس لئے انسان دوست برطانوی سیاسیات کے ماہر ڈیوڈ مارقونڈ لکھتے ہیں ”گلوبلائزیشن کی بازگشت ہر چھت سے سنائی دیتی ہے اور سوال کر رہی ہے، ڈی ریگولیشن کیوں؟ لیبرلائزیشن کیوں؟ بے روزگاری کیوں؟ براہ راست ٹیکسوں میں کمی کیوں؟ حقیقی اجرتوں میں کمی کیوں؟ سماجی تحفظ میں کمی کیوں؟ اس لئے کہ بے ہنر برطانوی محنت کشوں کے بجائے ایشیاء سے بھوکے محنت کشوں کو کم اجرت پر لایا جائے“۔اصل بات یہ ہے کہ جب تک سابق سوویت یونین بحال تھی اس کے خوف سے یورپ، امریکہ میں جمہوریت کی کچھ اقدار تھیں، سوشل سیکورٹی اور سوشل انشورنس تھی، ٹھیکہ داری نہیں تھی، مراعات بھی دی جاتی تھیں۔ سابق سوویت یونین کے بعد دنیا کے مٹھی بھر اجارہ داروں نے عالمی وسائل اور کرنسی نوٹوں پر بینکوں کے ذریعے قبضہ کر لیا، یہ نظام بھی ہوس سے آگے نکل کر کھائی کی طرف جا رہا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سابق سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا کی غریب اقوام لاوارث ہوگئیں۔
تازہ ترین