• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ … مریم فیصل
اس ہفتے پہلی عالمی جنگ عظیم کے خاتمے کے سو سال مکمل ہونے کی تقریبات منائی گئیں ۔ عالمی جنگوں نے جہاں دنیا میں تباہی و بربادی کا نیا باب رقم کیا وہیں یورپی یونین کی تخلیق نے دوستی اور تعاون کی عمدہ شکل دنیا کو دکھائی تھی کہ جتنے برے دشمن تھے اس سے کہیں گنا بہترین دوست ثابت ہوئے ہیں لیکن بدلتے حالات بہت کچھ بدل دیتے ہیں اور دوستوں کو بھی کبھی کبھی اپنے راستے جدا کرنے ہی پڑتے ہیں ۔اسی لئے بریگزٹ بھی ہم نے دیکھ لیا۔برطانوی وزیر اعظم تھریسامے بریگزٹ کی کامیاب ڈیل کی کوشیشوں میں لگی ہیں ساتھ ہی ان کی کابینہ سے منسٹرز کا اخراج بھی جاری ہے ابھی کچھ دن پہلے ہی ٹرانسپورٹ کے منسٹر نے الوداع لیا ہے ۔سابق میئر لندن بورس جانسن کے بھائی جو جانسن جنہوں نے ریفرنڈم میں ساتھ رہنے کی حمایت کی تھی اب مسز مے کی بریگزٹ ڈیل سے ناخوش ہو کر اپنا راستہ جدا کر لیا ہے ۔ان کے بھائی بورس جانسن نے اس قدم کو آپسی اتحاد کہا ۔یاد رہے کہ بورس جانس بریگزٹ کی حمایت میں لیڈ پوزیشن پر تھے لیکن مسز مے کی ڈیل ان کو نہ بھائی اس لئے انھوں نے برطانیہ اور یونین کے ختم ہوتے اتحاد سے ہاتھ ہی کھنچ لیا ۔مسز مے کہے رہی ہیں کہ بریگزٹ ڈیل پر 95 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے جب کہ اس ڈیل کو، چھوڑ کر جانے والے منسٹرز برطانیہ کے لئے بڑی غلطی قرار دے کر چلتے بنے ہیں ۔ بڑی ہی گرما گرمی ہے دوسرے ریفرنڈم کی پیشگوئیاں کی جارہی ہیں لیکن ٹین ڈائوننگ اسٹریٹ کے ترجمان دوسراریفرنڈم ہونے کے کسی بھی امکانات کو ابھی تک مسترد ہی کر رہے ہیں۔ ابھی آگے کیا کیا ہوگا یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔آگے بڑھے تو پاکستان کے نئے وزیر اعظم کپتان خان وکٹ پر جم کر چھکے چوکے لگانے کے لئے دنیا دنیا گھوم رہے ہیں تاکہ پاکستان کی معاشی بدحالی کو کنٹرول میں کر سکیں اور ساتھ ہی ساتھ بار بار میڈیاکے تعاون سے قوم سے خطاب پہ خطاب بھی کئے جارہے ہیں اور اپنی لحمہ بہہ لحمہ سر گرمیوں سے عوام کو باخبر کر رہے ہیں کہ فکر نہ کرو ہم ابھی توپچ پر آئے ہیں رن ریٹ اچھا بنا کر ہی دم لیں گے ۔ تنقیدیں ان پر خوب کی جارہی ہیں کہ ہمیں کہتے تھے اب خود بھی تو ایک ملک سے دوسرے ملک قرضے مانگتے پھر رہے ہیں اور اب تو آئی ایم ایف کے آگے بھی ہاتھ پھیلا چکے ہیں ۔ ایسے بدخواہوں سے اور کیا کہہ سکتے ہیں اس کے علاوہ کہ اس سے فائدہ ملک کو ہی پہنچے گا ۔آئی ایم ایف سے ہمیں امریکہ یاد آرہا ہے جہاں گزرے ہفتے میں مڈ ٹرم انتخابات منعقد ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ جنہوں نے دو سال قبل امریکہ کا صدر منتخب ہو کر دنیا کو دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور کر دیا تھا کہ ایک بزنس مین جسے سیاست کی الف ب بھی نہیں معلوم امریکہ کا صدر کیسے منتخب ہو گیا۔ اب یہ یا تو باراک اوبامہ کی ناکام پالیسوں کا کرشمہ تھا یا پھر امریکی عوام بھی کچھ تبدیلی چاہتے تھے جس کی تعبیر کی خواہش نے ڈونلڈ ٹرمپ کو سپر پاور امریکہ کا صدر منتخب کر وانے پر مجبور کردیا ۔ ٹرمپ نے امریکہ کی صدارت کو اپنے کاروبار کی طرح ہی چلایا ہے اور امریکہ کی فطری روایتی سختی کا خوب مظاہرہ کرتے ہوئے منتخب ہوتے ہی کبھی ایک ملک پر پابندی تو کبھی شام کی خانہ جنگی پر مداخلت کرنا شروع کی اور میڈیا کوبھی خوب آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اپنے ملک کے بڑے نشریاتی ادارے کے صحافیوں کو بھی نہیں بخشا اوراب مڈ ٹرم انتخابات میں ایوان نمائندگان میں اپنے جماعت کی نمائندگی گنوا بیٹھے ہیں لیکن اس ناکامی پر بھی بہت خوش ہیں کیونکہ اب بھی سینیٹ میں ان ہی کی جماعت کو اکثریت حاصل ہے ۔ مڈٹرم کے انتخابات کے یہ نتائج اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ امریکی عوام تقسیم ہو گئے کیونکہ پہلے صرف ری پبلکن کو برتری حاصل تھی اور ٹرمپ ددو سال سے بلا شرکت غیرے مالک بنے ہوئے تھے اب ان کو اپنی پالیسوں پر عمل کرنے میں رکاوٹوں کا بھی سامنا کر نا پڑ سکتا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ ان انتخابات میں امریکہ کے مضافاتی علاقوں کے پڑھے لکھے طبقے جو پہلے تو حکمراں جماعت کے حمایتی تھے ان کو ٹرمپ کا انداز زیادہ بھایا نہیں اس لئے ان کے ووٹوں کی بدولت ڈیمو کریٹ کو ایوان نمائندگان میں آٹھ سال بعد بر تری حاصل ہوگئی ہے ۔ اب ان نتائج کے اثرات دو سال بعد ہونے والے عام انتخابات میں حکمراں جماعت کو کافی مشکلات کا سامنا کروا سکتے ہیں ۔ ان نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ مشورہ دینے کو جی چاہتا ہے کہ جناب کچھ توجہ اپنے مزاج پر کریں اور کچھ دھیان پالیسیوں پر دیجیے ورنہ یہ عوام ہی ہے جو صدیوں کے گٹھ جوڑ کو بریگزٹ کی صورت میں توڑ بھی سکتی ہے اور آپ تو ابھی نئے نئے سیاست کے کھلاڑی بنے ہیں ۔
تازہ ترین