• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوج کے سپہ سالار کی اولین ذمہ داری ملکی سرحدوں کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں فوج کا کام دہشت گردوں سے نمٹ کر ملک میں امن و امان قائم کرنا بھی ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی ملک میں قدرتی آفات زلزلہ یا سیلاب آئے، ہماری افواج نے دن رات ایک کرکے عوام کو محفوظ بنایا۔ محدود وسائل ہونے کے باوجود پاکستانی افواج نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرکے دنیا میں ایک نام کمایا ہے جبکہ خطے کے دوسرے ممالک آج بھی دہشت گردی کی جنگ کا شکار ہیں۔ اس لحاظ سے ہمیں اپنی افواج پر فخر ہے۔ پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ان تمام اہم ذمہ داریوں کے علاوہ ملکی معیشت کیلئے بھی بیک ڈور بے انتہا کام کر رہے ہیں اور ملکی معیشت پر انکی گہری معلومات ہیں جس کا اندازہ مجھے حال ہی میں راولپنڈی میں جنرل باجوہ سے ایک غیر رسمی ملاقات کے دوران ہوا اور میں ان کی گفتگو سے بے حد متاثر ہوا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ سے میری پہلی ملاقات گزشتہ سال اکتوبر میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کے زیر اہتمام کراچی میں منعقدہ سیمینار ’’ملکی معیشت اور سیکورٹی‘‘ میں ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی اور آرمی کی اعلیٰ قیادت نے اس طرح کے سیمینار میں شرکت کی اور ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز اور اُنکے حل کیلئے مشاورت کی۔

سیمینار میں پریس اور الیکٹرونک میڈیا کے مالکان اور معروف ٹی وی اینکرز بھی موجود تھے جبکہ تقریب میں کسی وفاقی، صوبائی وزیر اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔سیمینار میں اسپیکرز نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ملکی معیشت اور سیکورٹی لازم و ملزوم ہیں اور مضبوط معیشت ملکی دفاع اور سیکورٹی کیلئے ضروری ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی تقریر میں بتایا تھا کہ میں روز اخبار میں پہلا صفحہ پڑھنے کے بعد بزنس اینڈ اکانومی صفحہ کا مطالعہ کرتا ہوں کیونکہ معیشت کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہے۔ مضبوط معیشت سے ادارے مستحکم ہوتے ہیں اور عوام کے اعتبار میں اضافہ ہوتا ہے۔ آرمی چیف نے اس وقت کی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں بتایا تھا کہ ملکی معیشت کی گروتھ بڑھی ہے لیکن قرضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انفرا اسٹرکچر اور توانائی میں نمایاں طور پر بہتری آئی ہے لیکن جاری کرنٹ اکائونٹ بیلنس ہمارے حق میں نہیں۔ جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح کم ہے جس کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ٹیکس کی بنیاد میں وسعت، مالیاتی ڈسپلن اور اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل یقینی بنانا ہو گا۔ آج جب میں ملکی معیشت کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے آرمی چیف کے مذکورہ بالا مسائل ہی ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز نظر آتے ہیں۔ سیمینار کے اختتام پر میرے اور میرے بھائی کے علاوہ چند مخصوص شخصیات کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ چائے پر ملاقات کا موقع دیا گیا تھا۔ میں نے آرمی چیف کو بتایا کہ سیمینار میں آپ کی شرکت سے پاکستان بھر کی بزنس کمیونٹی کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے جس پر انہوں نے کہا کہ فوج نے ملک میں امن و امان قائم کر دیا ہے، اب یہ بزنس کمیونٹی کا کام ہے کہ وہ ملکی معیشت کو صحیح راہ پر گامزن کرے۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ بزنس کمیونٹی کو افواجِ پاکستان پر فخر ہے اور وہ اپنی افواج کو کبھی مایوس نہیں کرے گی۔ گزشتہ دنوں فیملی کے ساتھ اپنے سمدھی کے بیٹے کی شادی میں راولپنڈی جانے کا اتفاق ہوا۔ لڑکی کے والد بریگیڈیئر (ر) شہریار جو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے پی ایم اے 62لونگ کورس میٹ ہیں، نے جنرل باجوہ کے علاوہ کورس کے دیگر افسران کو بھی شادی میں مدعو کیا تھا۔ اس موقع پر میری ملاقات جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل زبیر حیات اور جنرل (ر) احسان الحق سے بھی ہوئی۔ جنرل باجوہ نے پہلے اپنے کورس میٹس سے خوشگوار موڈ میں ملاقاتیں کیں اور بعد ازاں ہمیں کھانے پر جوائن کیا اور ملکی معیشت پر ہماری آدھے گھنٹے سے زائد گفتگو رہی۔ میں نے انہیں بتایا کہ بزنس کمیونٹی کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور وہ بزنس مین جنہوں نے اپنی جائیدادیں ایمنسٹی اسکیم میں قانونی طور پر ڈکلیئر کر دی ہیں، ان کو بھی ایف آئی اے سے فنڈز کی معلومات کے بارے میں نوٹسز موصول ہو رہے ہیں جس سے بزنس کمیونٹی میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ جنرل باجوہ نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ایمنسٹی اسکیم کو تو سپریم کورٹ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ میں نے جنرل باجوہ کو بتایا کہ چین کے ساتھ تجارت میں عدم توازن ہے، چین کی پاکستان کو ایکسپورٹ 18ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ 2ارب ڈالر سے بھی کم ہے اور اس طرح پاکستان اور چین کی تجارت میں پاکستان کو 16ارب ڈالر سے زائد کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے بتایا کہ انہوں نے چینی سفیر سے اپنی ملاقات میں ان خدشات کا ذکر کیا ہے کہ حکومت کو تنقید کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چین پاکستان کو FTAکے دوسرے مرحلے میں ٹیکسٹائل کے علاوہ دیگر مصنوعات کو ایکسپورٹ کیلئے ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی دینے کو تیار ہے۔ اس کے علاوہ چین نے حال ہی میں انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو کا انعقاد کیا ہے جس میں پاکستانی ایکسپورٹرز نے اپنی اشیا چینی خریداروں کو فروخت کیں۔ حال ہی میں چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان سے اپنی خریداری (امپورٹ) تین گنا بڑھا دے گا اور مستقبل میں پاکستان اور چین کے مابین تجارت ڈالر کے بجائے روپے اور چینی کرنسی یوآن میں کی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ چین نے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک اکائونٹ میں 2ارب ڈالر جمع کرانے کا عندیہ بھی دیا ہے جبکہ وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک کا وفد ان معاملات کو حتمی شکل دینے کیلئے آج کل چین کے دورے پر ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ دہائیوں میں دنیا کے 10بڑے ممالک امریکہ، چین، جاپان، جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی، کینیڈا، اسپین اور بھارت کی جی ڈی پی کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ 1960ء میں امریکہ کی جی ڈی پی 550ارب ڈالر، برطانیہ کی 74ارب ڈالر، فرانس کی 65ارب ڈالر، چین کی 56ارب ڈالر، جاپان کی 47ارب ڈالر، کینیڈا کی 41ارب ڈالر، اٹلی کی 42ارب ڈالر، بھارت کی 38ارب ڈالر اور آسٹریلیا کی 19ارب ڈالر تھی لیکن 2017ء میں امریکہ کی جی ڈی پی 19390ارب ڈالر، چین کی 12014ارب ڈالر، جاپان کی 4872ارب ڈالر، جرمنی کی 3684ارب ڈالر، برطانیہ کی 2624ارب ڈالر، بھارت کی 2611ارب ڈالر، فرانس کی 2583ارب ڈالر، برازیل کی 2054ارب ڈالر، اٹلی کی 1937ارب ڈالر اور کینیڈا کی 1652ارب ڈالر ہے جبکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی 305ارب ڈالر ہے۔ میں حیرت سے فوجی جنرل سے معیشت کے اعداد و شمار سن رہا تھا اور ان کی ذہانت کا معتقد ہو رہا تھا۔ قارئین! سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کے کامیاب دوروں اور سی پیک منصوبوں کے پیچھے جنرل باجوہ کی انتھک کاوشیں شامل ہیں جس کیلئے قوم اُن کی شکرگزار ہے۔

تازہ ترین