• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج دُنیا بَھر کے دانش وَر اس نتیجے پر پہنچ چُکے ہیں کہ اگر صنعتی ترقّی اور فطرت میں توازن نہ رہا، تو کرّۂ ارض بہت جلدتباہی سے دوچار ہو جائے گی۔ نیز، اوزون میں چَھید، موسمیاتی تبدیلیاں، آبادی میں بے تحاشا اضافہ اور امیر و غریب میں خطرناک امتیاز جیسے عوامل مل کر انسانیت کے مستقبل کو مخدوش بنا رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کا تعلیمی نظام ایسے تعلیم یافتہ نوجوان جنم دے رہا ہے کہ جو اپنی صلاحیتوں کے بَل بوتے پر روزگار تک حاصل نہیں کر سکتے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فولاد اور بھاپ کے انجن نے دُنیا کی ماہیت بدل کر رکھ دی ہے ، جب کہ خود کار مشینز کےوجود میں آنے سے انسانی تہذیب اس طرح انقلابی تبدیلیوں کی زَد میں آئی ہے کہ آئینِ نو سے ڈرنے والی بے لچک اقوام کا جینا دُو بَھر ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ جب دُنیا کی بڑی ریاستوں کا جاگیر دارانہ ڈھانچا صنعتی ڈھانچے میں تبدیل ہوا، تو نتیجتاً ان کی سیاسی، معاشی، سماجی، اخلاقی، روحانی اور مادّی اقدار بھی تیزی سے بدلنے لگیں، جب کہ پاکستان ابھی تک قبائلی و جاگیر دارانہ عصبیتوں اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا اور صنعتی ممالک کی یلغار سے پسپائی پر مجبور ہے اور نیم تعلیم یافتہ اور ہُنر سے عاری نوجوان کرپشن سے اَٹے اس نظام میں روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں، جن میں سے61فی صد ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے غلط راہوں پر چل نکلتے ہیں۔

خیال رہے کہ قرضوں میں ڈُوبا اور تجارتی خسارے کا شکار پاکستان صرف اور صرف انسانوں پر سرمایہ کاری ہی سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ تاہم، افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت سیاست کے اصل مفہوم تک سے واقف نہیں اور سیاست دان عوام کی بہ جائے اپنا معیارِ زندگی بلند کر نے میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرف انتشار اور افراتفری کی سی کیفیت ہے۔ پھر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج دُنیا کے 1200مال دار ترین افراد دُنیا کی نصف سے زاید دولت کے مالک ہیں۔ بھارت کے نوبل انعام یافتہ ماہرِ معیشت، امرتیاسین کا کہنا ہے کہ ’’ بھارت کے 4مال دار ترین سرمایہ داروں کے پاس 80کروڑ بھارتی عوام سے زیادہ دولت ہے۔‘‘دوسری جانب تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی انسانیت کے لیے سنگین مسائل پیدا کر دیے ہیں، لیکن انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر فتح پانے کی دُھن میں مگن، اسلحہ منڈیوں پر قبضے میں مشغول اور فطرت پر غلبہ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، حالاں کہ ترقّی کا انحصار فطرت کو مغلوب کرنے پر نہیں، بلکہ اس کی قوّتوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کے ساتھ خوش گوار تعاون میں مضمر ہے۔ درحقیقت، قدرت نے بنی آدم کو ایسے حیاتیاتی و جذباتی وسائل مہیا کیے ہیں کہ جن سے فائدہ اُٹھانے کے لیے فطرت کو مغلوب کرنے کی بہ جائے اس سے دوستی کی ضرورت ہے۔ ہر چند کہ سائنس اور ٹیکنالوجی اور صنعت و حرفت کی ترقّی نے انسان کو بہت سی آسائشیں بہم پہنچائی ہیں، لیکن سائنسی موشگافیاں اور جدید صنعتی تہذیب اپنے ساتھ چند مصائب و مسائل بھی لائی ہے اور قیامت خیز جوہری ہتھیاروں اور جدید سماجی و اقتصادی مسائل کے بعد آج صنعتی ترقّی کے نتیجے میں پھیلنے والی آلودگی کے مضر اثرات کرۂ ارض کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چُکے ہیں۔ آج شمالی یورپ کارخانوں سے نکلنے والا دُھواں، آبی بخارات سے مل کر سیکڑوں میل دُور تیزابی بارشوں کا سبب بن رہا ہے، جس کے نتیجے میں پودے اور درخت ختم اور آبی حیات میں کمی واقع ہورہی ہے۔ دُنیا بَھر کے صنعتی مراکز سے نکلنے والا تیزابی دُھواں اور کیمیائی سیال اور کیڑے مار ادویہ کا کثرت سے استعمال فضا، دریا اور سمندروں کو آلودہ کرنے کے ساتھ حیوانات، نباتات اور حشرات کو فنا بھی کر رہا ہے اور اگر آلودگی کو روکنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے، تو یہ نوعِ انسانی کی خود اپنے ہاتھوں شکست و تباہی ہو گی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان، فطرت اور صنعتی ترقّی میں کس طرح توازن پیدا کر سکتا ہے؟ بدقسمتی سے عالمی سطح پر آج تک کبھی بھی اس اہم موضوع کو نہیں چھیڑا گیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لالچ، ہوس اور منافع خوری نے انسان کو عداوتوں اور جنگوں میں مصروف کر رکھا ہے، جب کہ پاکستان کی سیاسی قیادت تو دُنیا میں رونما ہونے والی ان تبدیلیوں سے بالکل ہی نابلد ہے اور نہ ہی یہ عوام کو ہُنر مندی سے آشنا کر سکی ۔ البتہ وزیرِ اعظم، عمران خان وہ پہلے لیڈر ہیں کہ جنہوں نے ہریالی میں اضافے، ماحولیات اور انسانی سرمایہ کاری کی بات کی ہے، لیکن ان کے ارد گرد موجود افراد ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کرنہیں سوچ سکتے۔ یاد رہے کہ ہُنر مندی ہی سے انسانی تہذیب ارتقائی مراحل طے کرتی ہے اور ہُنر، جذبات پر ہمیشہ غالب رہتا ہے۔ نیز، قدامت پر جدیدیت کو فتح نصیب ہوتی ہے، مگر ہماری قوم میں یہ سوچ نہیں پائی جاتی، ورنہ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ مُملکتِ خداداد آج ایشیا میں سب سے آگے ہوتی۔ جاگیر دارانہ طرزِ سیاست پر یقین رکھنے والے ہمارے سیاسی رہنمائوں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ دُنیا میں ہر معاشی مقابلے کی ہیئتِ ترکیبی ٹیکنالوجی سے تشکیل پاتی ہے اور اداروں کی فنا و بقا کا انحصار بھی علم اور ٹیکنالوجی پر ہوتا ہے۔ مثلاً، جب بیلوں، ہلوں، درانتیوں اور ہتھوڑوں کی ٹیکنالوجی ٹریکٹرز، ہاروسٹرز اور دیگر مشینز میں بدل گئی، تو پھر مذکورہ اشیا کے ساتھ وابستہ ادارے بھی ختم ہو گئے۔ یاد رہے کہ ترقّی اوروہ بھی سرمایہ دارانہ ترقّی بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ اسی طرح جب پِک اَپس آئیں، تو تانگے ختم ہو گئے اور آج کسی کو علم ہی نہیں کہ تانگے والوں پر کیا گزر رہی ہے۔ یہ بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ ترقّی ہمیشہ پس ماندگی کو روندتی چلی جاتی ہے۔

پاکستان میں رائج تعلیمی نظام بے روزگار نوجوان پیدا کر رہا ہے، جب کہ انگریزی تعلیمی اداروں کے طلبہ اپنے معروضی حالات سے بے خبر آئی ٹی کے میدان میں کچھ کر دِکھانے کی جدوجہد کر رہے ہیں، حالاں کہ ہماری یہ مارکیٹ بہت پس ماندہ ہے۔ بد عنوان معاشرے کی وجہ سے سرکاری درس گاہوں میں رٹّا اور نقل عام ہے، جس کے نتیجے میں ہُنر مند پروفیشنلز سامنے نہیں آ رہے اور یہ پس ماندگی کرپشن اور جرائم کو فروغ دیتی ہے۔ اس موقعے پر جب ہم پارلیمان میں موجود عوامی نمایندگان پر نظر دوڑاتے ہیں، تو ہماری مایوسی میں مزید اضافہ ہوتا ہے کہ ان کی غیر سنجیدگی کی وجہ ہی سے مُلک کے قدرتی وسائل اور انسانی سرمایہ بے مائیگی کا شکار ہے۔ تاہم، پاکستان کی تاریخ میں غالباً پہلی مرتبہ وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت (ایف پی سی سی آئی) کے قائم مقام صدر، جاوید اقبال چوہدری نے یہ کہا کہ مُلک میں نیشنل ٹیکنیکل ایجوکیشن پروگرام کا ہنگامی بنیادوں پر آغاز ہونا چاہیے۔ اُن کا ماننا ہے کہ اس سے نہ صرف پاکستان کی صنعتوں کو فائدہ ہو گا، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کو درکار افرادی قوّت بھی پوری کی جا سکے گی۔ گرچہ پاکستان میں سی پیک کے تحت خصوصی اقتصادی زونز تعمیر کیے جا رہے ہیں، لیکن ہمارے پاس یہاں کام کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہُنر مند افرادی قوّت موجود نہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ گزشتہ 70برس کے دوران ہمارے حُکم رانوں نے شعبۂ تعلیم کی طرف توجّہ دی اور نہ ہی شہریوں کو ہُنر مند بنایا، کیوں کہ ہماری اشرافیہ کو تعلیم یافتہ اور ٹیکنالوجی سے آراستہ افراد کی ضرورت نہیں، جب کہ ہمارے قبائلی سردار اور جاگیر دار یہ نہیں چاہتے کہ اُن کی رعایا تعلیم حاصل کرے، کیوں کہ اگر یہ تعلیم یافتہ ہو گئی، تو اس سے انہیں بھاری نقصان ہو گا، لیکن دوسری جانب جدید دُنیا پس ماندگی کو روندتی ہوئی آگے نکل جائے گی۔ اس وقت پاکستان میں تیکنیکی تعلیمی اداروں اور پروفیشنلز کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ یہ ہُنر مند انسانی سرمایہ ہی ترقّی کی بنیاد ہے۔ اگر پاکستانی نوجوانوں کو تربیت فراہم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تیکنیکی تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں، تو ہم سی پیک سے بھرپور فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ وگرنہ سارے کام چینی باشندے ہی کریں گے۔ گرچہ وزیرِ اعظم، عمران خان نے ہریالی میں اضافے اور انسانوں پر سرمایہ کاری پر زور دیا ہے، لیکن اُن کی جماعت کے ارکان اور پارلیمان میں موجود عوامی نمایندے جدید دُنیا سے نا آشنا ہیں۔ لہٰذا، انسان اور فطرت میں توازن جیسے اہم موضوع کو نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے۔ نیز، ہمارا میڈیا اس موضوع پر بھی بات کرےکہ انسانوں پر سرمایہ کاری کے ذریعے قدرتی وسائل سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، کیوں کہ پاکستانی معاشرے میں موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات، پانی کی قلّت اور جدید ٹیکنالوجی سے متعلق بہت کم شعور پایا جاتا ہے، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔ 

تازہ ترین