• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسموگ کے نقصانات اور بچاؤ کا طریقہ

گرمیوں کا جانا اور سردیوں کا آنا، ایک طرف خوشگوار تبدیلی کا باعث بنتا ہے تو دوسری جانب بدلتا موسم اپنے ساتھ کچھ مسائل بھی لاتا ہے۔ موسم سرما کی آمد سے قبل فضاخشک ہوجاتی ہے اور کچھ علاقوں میں اسموگ ڈیرے ڈال لیتی ہے، خصوصاً شام اور صبح کے اوقات میں یہ صورتحال تشویشناک ہوجاتی ہے۔ صنعتی علاقوں میں اسموگ واضح کثرت سے دیکھی جا سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ شہروں میں اکثر دیکھنے کو ملتی ہے۔ بظاہر آسمان دھند کی چادر تان لیتا ہے لیکن درحقیقت یہ دھند(Fog) نہیں بلکہ آلودگی (Smog)ہوتی ہے، جس کی وجہ سے حد نگاہ بھی متاثر ہوتی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اسموگ اگر برقرار رہتی ہے تو اس سے مختلف امراض کے بڑھنے کا حدشہ ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں، پودوں اور فطرت کی ہر چیز کو نقصان پہنچاتی ہے۔

اسموگ کیا ہے؟

’اسموگ‘ ، فوگ یعنی دھند اوراسموک یعنی دھویں سے ماخوذ ایک اصطلاح ہے۔ یہ ایک فضائی آلودگی ہے، جو انسان کی دیکھنے کی صلاحیت کو کم کردیتی ہے۔ ماہرین کے مطابق موسم گرما جانے کے ساتھ ہی جب دھند بنتی ہے تو یہ فضا میں پہلے سے موجود آلودگی کے ساتھ مل کر اسموگ بنا دیتی ہے۔ اس دھویں میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے زہریلے مواد شامل ہوتے ہیں۔ کیمیائی طور پر اس میں صنعتی فضائی مادے، گاڑیوں کا دھواں، کسی بھی چیز کے جلانے سے نکلنے والا دھواں مثلاً بھٹوں سے نکلنے والا دھواں شامل ہوتا ہے ۔اسموگ کی وجہ سے اوزون کی مقدار فضا میں خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے جب ہوانہیں چلتی اور درجہ حرارت میں کمی یا دیگر موسمی تبدیلی واقع ہوتی ہے توآلودگی فضاء میں اوپرنہیں جاتی بلکہ زمین کے قریب ہی ایک تہہ بن جاتی ہے۔ ان وجوہات کے نتیجے میں یہ غیر معمولی آلودگی کئی کئی دن تک شہرمیں برقرار رہ سکتی ہے ۔

کراچی جیسے شہرمیں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، ان میں پلاسٹک سے بنی اشیا اور تھیلیاں وٖغیرہ بڑی مقدار میں شامل ہوتی ہیں۔ صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے کچرے کے ڈھیرکو آگ لگا دی جاتی ہے، جس سے پورے علاقے کی فضا کثیف دھویں سے آلودہ ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں دیہی علاقوں میں اینٹیں بنانے والے بھٹے، فیکٹریوں اور ملوں کی چمنیاں بھی کثیر مقدار میں دھواں پھیلاتی ہیں، جو ماحول کو آلودہ اور خطرناک شکل اختیار کرنے میں معاون ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ بھارتی پنجاب میں کسان گندم کی فصل کاشت کرنے کیلئے کھیتوں میں پرانی فصل کی باقیات کو آگ لگا دیتے ہیں، جس کا دھواں ہوا کے زور پر پاکستان میں روزمرہ زندگی کو شدید متاثر کرتا ہے۔

26جولائی 1943ء کو امریکا کے شہر لاس اینجلس میں اپنے وقت کی سب سے بڑی اسموگ کا سامنا کرنا پڑا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران شدید دھند کی وجہ سے لاس اینجلس کے شہریوں کو غلط فہمی ہوگئی تھی کہ جاپان نے ان پر کیمیائی حملہ کردیا ہے۔ دسمبر1952ء میں لندن میں فضائی آلودگی کی لہر کو’گریٹ اسموگ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لندن میں آلودہ دھند کی وجہ سے12ہزار سے زائدافراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔1987ء میں گیارہ سوسے زائد نوجوان زہریلی اسموگ کی وجہ سے سانس نہ لے سکے اور موت کا شکارہوگئے۔

ترقی یافتہ ممالک نے اسموگ میں کمی کے لیے قوانین بنا رکھے ہیں، جو فیکٹریوں میں خطرناک اور بے وقت دھویں کے اخراج پر پابندی لگاتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر فاضل مواد جیسا کہ پتے ضائع کرنے کے لیے مخصوص جگہیں بنائی گئی ہیں، جہاں دھواں ہوا میں شامل ہوکر خارج ہو جاتا ہے۔

اسموگ کے خطرات اور نقصانات

ہر سال اسموگ کے باعث70لاکھ کے قریب لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اگر فضا میں آلودگی کی یہ شرح برقرار رہی تو اس سے سنگین قسم کی بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ فضا میں موجود سلفیٹ اور کاربن مونو آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار زمین پر بسنے والے انسانوں کے پھیپھڑوں اور دل کے نظام کے علاوہ جِلد اور گلے کو متاثر کر سکتی ہے۔ جس میں خاص طور پر دل کے امراض،پھیپھڑوں کے امراض اور سانس کی بیماریاں لا حق ہو سکتی ہیں۔عمر رسیدہ افراد، حاملہ خواتین اور چھوٹے بچے کمزور مدافعتی نظام کی وجہ سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ ا سموگ میں زیادہ وقت گزارنا مختلف طبی مسائل کا باعث بنتا ہے۔

اسموگ میں سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے، خاص طور پر گہرے سانس لینا مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر آپ دمے کے مریض ہیں تو اسموگ میں جانا آپ کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ اسموگ سے سب سے زیادہ آنکھیں متاثر ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ان میں جلن اور خارش کا احساس ہوتا ہے۔ خاص طور پر موٹر سائیکل سوار اور کھلے مقامات پر کام کرنے والے لوگ اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جنہیں پہلے سے سینے، پھیپھڑے یا دل کی بیماری ہو، اُن کے لئے اسموگ مزید بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

ملک کے بیشتر حصوںخصوصاً لاہور اور کراچی میں فضائی آلودگی کے باعث آنکھوں میں جلن، سانس لینے میں دشواری، کھانسی، گلے، ناک، کان اور پھیپھڑوں کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں اور الرجی کے مرض میں بھی مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔

ہم اسموگ کو کیسے کم کر سکتے ہیں؟

اسموگ عموماً سب کیلئے ہی پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ ہر کوئی محض چند عادات اپنا کر اسموگ کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ جیسا کہ گیس سے چلنے والے آلات کے بجائے بجلی کے آلات استعمال کیے جائیں، دھوئیں والی گاڑی ٹھیک کرانا، وقتاًفوقتاً گاڑی کا تیل بدلنا اور ٹائروں کی سطح متوازن رکھنا۔ مندرجہ بالا احتیاط دھواں کے اخراج میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔

احتیاطی تدابیر

جیسا کہ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکال لیا جاتا ہے، اسی طرح احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اسموگ کے مضر اثرات سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر کے ذریعے آپ خود کو اور اپنے خاندان کو سموگ سے بچا سکتے ہیں۔

٭اسموگ سے بچائو کیلئے ضروری ہے کہ گھر سے باہر نکلنے سے پہلے ماسک کا استعمال کریں۔

٭ آنکھوں کیلئے چشمے کا استعمال ضرور کریں کیونکہ اسموگ میںموجودگیسوں کا مجموعہ آنکھوں کے مختلف امراض میں مبتلا کر سکتا ہے۔

٭ کانٹیکٹ لینس کی بجائے نظر کی عینک کو ترجیح دیں۔

٭ تمباکو نوشی ترک کریں یا کم کردیں۔

٭ زیادہ سے زیادہ پانی پئیں اور گرم چائے کا استعمال کریں۔

٭باہر سے گھر آنے کے بعد اپنےہاتھ ، چہرے اور جسم کے کھلے حصوں کو صابن سے دھوئیں۔

٭گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں۔

٭کھڑکیوں اور دروازوں کے کھلے حصوں پر گیلا کپڑا یا تولیہ رکھیں۔

٭گاڑی چلاتے ہوئے گاڑی کی رفتار دھیمی رکھیں اور حد نگاہ کم ہونے پر فوگ لائٹس کا استعمال کریں۔

٭بازاروں،گلیوں یا سٹرکوں پر فالتو پھرنے سے گریز کریں۔

٭گھر کی صفائی جھاڑو کے بجائے گیلے کپڑے سے کریں۔

٭زیادہ ٹھنڈے مشروبات سے اجتناب کریں۔

٭گھروں کے باہر پانی کا چھڑکائو کرتے رہیں۔

٭تمام سٹرکوں اور گلیوں میں صفائی کا خیال رکھا جائے۔

٭تعمیراتی سائٹس پر گردو غبار کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں۔

٭ جنریٹرز اور زیادہ دھواں خارج کرنے والی گاڑیوں کو ٹھیک کروایا جائے۔

تازہ ترین