چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے عدالت میں زلفی بخاری کے رویہ پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اپنا غصہ گھر چھوڑ کر آئیں آپ کسی اور کے دوست ہونگے سپریم کورٹ کے دوست نہیں۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں زلفی بخاری کی بطور معاون خصوصی وزیراعظم تقرری کی نااہلی پر دائر درخواستوں کی سماعت ہوئی، جس میں چیف جسٹس نے زلفی بخاری کا تمام بائیو ڈیٹا تقرر کاعمل اور اہلیت کے بارے میں رپورٹ طلب کی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل زلفی بخاری کو ان کے عدالتی رویہ کے بارے آگاہ کریں۔
انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ملکی اہم عہدوں پر تقرر کرنا اہم قومی فریضہ ہے یہ معاملات دوستی پر نہیں قومی مفاد پر چلیں گے۔
زلفی بخاری کے وکیل اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا کہ معاون خصوصی کا تقرر کرنا وزیر اعظم کا اختیار ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم کو بے لگام اختیارات نہیں ہیں وہ عوام کا ٹرسٹی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اپنی من اور منشا کے مطابق معاملات نہیں چلائے گا ہم طے کرینگے کے معاملات آئین کے تحت چل رہے ہیں کہ نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اعلیٰ عہدوں پر اقربا پروری نظر نہیں آنی چاہیے نہ ہی بندر بانٹ ہو۔
جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ زلفی بخاری کو کس اہلیت کی بنیاد پر تقرر کیا گیا، کس کے کہنے پر سمری تیار ہوئی؟ اس پر زلفی بخاری کے وکیل نے بتایا کہ انہیں آئینی عہدہ نہیں دیا گیا، ان کا تقرر رولز آف بزنس کے تحت کیا گیا ہے،زلفی بخاری کابینہ کے رکن نہیں۔
وکیل اعتزاز احسن کا مزید کہنا تھا کہ اوورسیز پاکستان کے لیے دوہری شہریت کے حامل فرد کو ہی عہدہ ملنا چاہیے اور ایسے شخص کے پاس برطانیہ اور پاکستان کا ویزہ ہو تو آسانی رہتی ہے۔
وکیل زلفی بخاری نے عدالت میں کہا کہ وزیر اعظم تو اوباما سے بھی مشورہ کرسکتے ہیں،اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ اہم نوعیت کا کیس ہے جس کے بعد انہوں نے کیس کی سماعت 5 دسمبر تک ملتوی کر دی۔