• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی بے حد پیچیدہ ہے، ہم انسانوں کے رویوں کی تاریخ اور داستان حیرت اور تنوع سے لبالب بھری ہوئی ہے۔ یہی تسلسل جاری ہے، اس ساعت تک جب بگل بجے گا، پھر کہیں جا کے فیصلے کی گھڑی شروع ہو گی۔ اب یہی دیکھ لو، ہم میں سے کون ہے جسے بے نظیر بھٹو شہید، آصف علی زرداری، نواز شریف، اسحاق ڈار، خواجہ آصف، چوہدری برادران، بیورو کریٹس سمیت غیرملکوں میں ان کی دولت کے انباروں کی کہانیوں سے حد سے زیادہ دلچسپی نہ ہو، پہلے ان کی کہانیوں سے پرنٹ میڈیا کا پیٹ بھرتا تھا اب الیکٹرونک میڈیا کی بھوک اور پیاس کے لئے بھی یہی کہانیاں تیر بہدف شفا کا کام دیتی ہیں۔ ان میں کتنی سچائی ہے؟ کیسی قانونی پوزیشن ہے؟ زمینی حقیقت اپنی جگہ چاہے کتنی ہی ناگزیر کیوں نہ ہو لیکن جائیں بھاڑ میں، ہمارے کلام اور وقت گزاری کے لذیذ ترین مشغلے کے کام و دہن کی یہ خوراک کم نہیں ہونی چاہئے، اب ایک مقامی معاصر میں ایک خلیجی ملک میں پاکستانیوں کے سوئٹزر لینڈ سے بھی دس گنا زیادہ کالے دھن کی اطلاع ملتی ہے، دوچار برس پہلے ایک خبر نگار نے 70پاکستانیوں کا سراغ ملنے کی خوشخبری بھی سنائی ہے۔ آج 2018ء ہے، نہ وہ 70پاکستانیوں کے نام سامنے آئے اور نہ ہی اس دولت کا سراغ ملا پھر بھی لذت اندوزی کے سنہری لمحوں کی آمد آمد رہے گی۔ تبصرے، جملے، پیش گوئیاں، چہروں پر تشویش زدگی کے ماسک، الیکٹرونک میڈیا کے لئے تو ایسی اطلاع نئی زندگی ملنے کے مترادف ہے، بیچاروں کو چوبیس گھنٹے جیتے جاگتے رہنا پڑتا ہے سو جو بھی ہاتھ لگے وہی خوراک کے طور پر قبول۔ اڈیالہ جیل کے قیدی نے تو ہمارے اس کھیل کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ قلمکاروں کو ان کے اخراجات میں غریب پاکستانیوں کے جنازے دکھائی دینے لگے ہیں۔ ایک بے حد ذمہ دار ٹی وی اینکر پرسن کو سزا ملنے میں تاخیر کے عمل سے ایوان عدل زمین بوس ہوتا دکھائی دینے لگا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں بیٹھے ہر نوعیت کے دانشوروں کو ان شخصیات کے جرائم میں امت مسلمہ کی مقدس روایات آخری دموں پر نظر آنے لگی ہے۔ ظاہر ہے ہم جو سب تہجد گزار ہیں، پانچوں وقت کے نمازی، ادائیگی، نوافل ہمارا شعار، روزے ہمارا اوڑھنا بچھونا، چغلی ہم نے کبھی کی نہیں، پیٹ بھرنے کی حد سے زیادہ کبھی کھایا نہیں، وہ بھی سادہ غذا۔ لاکھوں پاکستانیوں کے شدید گرمی میں ایئرکنڈیشنر کے بغیر زندگی گزارنے کو ہم برداشت نہیں کرسکتے، ناجائز منافع سے ہمارے شب و روز آلودہ نہیں، ہم میں سے کوئی کبھی جھوٹ کے قریب نہیںگیا۔ حق سچ بات کہنے میں ہم نے احمد بن حنبلؒ اور ابن تیمیہؒ کی روایات کا دامن تھام رکھا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کی ہر ایک تک اسی طرح رسائی حاصل ہے جیسے ہمارے حکمران اسلاف ہر وقت عوام کی دسترس میں رہتے اور جوابدہ ہوتے تھے، اس قیدی کو کیوں تشخیص و تفتیش کے نام پر مہلت دی جارہی ہے۔ ہمارے تھانے دیانتداری کےشاہی مینارے، ہم خود آئین و قانون کے سراپا نمونے، مگریہ تین قیدی آخر کیوں نہیں انہیں جلد از جلد مشقت کرنے پرمجبور کیاجاتا؟ ہماری مجلس آرائیوں کے توشہ خانے کبھی خالی نہیں ہوتے۔ لوگوں کوصراط مستقیم یا اپنے علاوہ سب کو سزا کی سان پرچڑھانا ہمارا مقصد ِ حیات ہے۔ ہم میں انہیں بھی بڑی عزت حاصل ہے۔ لوگ ہمیں بیمار ذہن کہتے ہیں جبکہ ہم ملت اسلامیہ کوعروج و انصاف کی اس نشاۃ ثانیہ پر لانا چاہتے ہیں جوشاعر مشرق کا خواب تھا۔ یہ جوہم نے پچاس ساٹھ برسوں میں ہزاروں کی تعداد میں ایک دوسرے کاخون بہایا یہ دراصل ’’ہنود و یہود‘‘ کی ہمارے خلاف سیاہ سازشوں کے جال ہیں۔ یہی حال ہیں جن سے آزادی کے لئے آزاد علاقوں میں ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں۔ ہم میں سے جو انہیں ’’شہدا‘‘ تسلیم نہیں کرتے وہ بھی ’’عظیم‘‘ ہیں۔ دراصل ہم سب ’’عظیم‘‘ ہیں کہ صرف ہمارا وطن عزیز اور ہم پاکستانی ہیں جو امریکہ، بھارت، برطانیہ، سویڈن، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، پولینڈ سمیت تمام ’’کفار ممالک‘‘ کو بے خطر کود پڑا آتش نمرود کے جذبے سے اپنے زیر نگیں لائیں گے تاکہ سارے جہاں میں مسلمانوں کا جھنڈا لہرا سکے۔ اس لئے اس سے گھبراتا نہیں، ہزاروں شہدا میں ہم نے ایک دوسرے کا خون نہیں بہایا، یہ پاکستان دشمنوں کی کارستانیاں ہیں، بظاہر ہم ہی قتل و غارت کرتے دکھائی دیں گے تاہم پس پردہ وہی ہیں ! ہم بروقت فکر مند رہتے ہیں، یہ فکر مندی روزانہ ہماری صحت کے لئے وٹامن اے سے لے کر وٹا من زیڈ تک کا کام دیتی ہے، ساری لذتیں نہ ہوں تو ہماری شدید ذہنی ہی نہیں جسمانی موت واقع ہو جائے (بعض بدبخت دن رات اس کی دعائیں بھی کرتے رہتے ہیں) بہرحال ان دنوں ایسی ہی فکر مندیوں سے ہماری مجلس میں انواع و اقسام کے پھول کھل رہے ہیں، پورے ایک باغ کا سا سماں ہے! مثلاً ان دنوں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی بعض بڑی شخصیتوں کے بارے میں پراسرار خبروں سے ہماری سنسنی خیزی کی ضرورت بخوبی پوری ہورہی، ہم سب دانشوروں کی اکثریت کے چہرے مسرت سے ٹماٹر ہورہے ہیں، سنا ہے مستقبل قریب میں اندرون پنجاب یعنی پنجاب کی گلی گلی میں ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف آپریشن شروع ہونے جارہا ہے، آپریشن ہوتا ہے یا نہیںلیکن اس خبر سے ہمارے لئے اورلذیز موضوع دستیاب ہوگیا جس کے طفیل ہمارے دوستوں کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک ’’راز‘ موجود ہے جس کی تفصیلات سے ہم پر سرشاری ہو جاتی ہے لیکن یہ سارا سماں صرف ایک اصول سے مشروط ہے! یعنی ہمیں کوئی کچھ نہ کہے ہم چاہے صحافت کی آزادی کے نام پر کسی وطن کی پوری دھرتی کو تہمت تراشیوں کی بدی سے بھر دیں!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین