• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں کوئی شے ملاوٹ کے بغیردستیاب نہیں،وہاں نظریات بھی فکری آلودگی کے باوصف اپنے اصل چہرے کی رونمائی سے لاچار ہیں۔ یہاں ایک طرف’ دائیں بازو‘ نے اپنے نظریات پر فرقے،مسلک اورجماعتی مفاد کی چادر ڈال لی ہے،تو ہو بہو ’بائیں بازو‘والوں نے بھی روشن خیال اصطلاح کو برگرطبقے ( اشرافیہ) کی خود نمائی کی تفہیم میں بدل دیا ہے۔راقم کو یہ حقیقت گزشتہ دنوں لاہور میں ہونے والے فیض فیسٹیول میں اشرافیہ کی بھرمار سے یاد آئی۔یہ پہلا موقع نہیںہے کہ ،فیض فیسٹیول کے نام پر اُس طبقے کے میلے کی روایت پڑ گئی ہے جس طبقے کے خلاف فیض صاحب نے عَلم بلند کیا تھا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مزدور،طلبہ اور درحقیقت عوامی جدوجہد کی داعیوں کی زبانی فیض صاحب کا درس ہوتا ،لیکن اب یہ میلے اشرافیہ کےمیل جول ہی کے نام ہوگئےہیں۔ لاہور فیسٹیول سے متعلق اگرچہ ایک دانشور سے سنا کہ عین ان کے سیشن سے چند ساعتیں پہلےاُنہیں اوربعض دیگر اسپیکرز کو منتظمین نے اظہار خیال سے روک دیاکیونکہ منتظمین بے باکانہ گفتگو شاید ’ایفورڈ ‘نہیں کرسکتے تھے۔ قطع نظر اس کے ،کہ اس عمل سے نظم’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ‘‘ کے خالق کی روح پر کیا گزری ہوگی۔ہم اس سے بھی تشویشناک اس امر کی جانب توجہ دلاناچاہتے ہیں کہ وہ’ آزاد فیض ‘جن کی زندگی جبر و استبداد اور چمک و کشش کی بے نیازی سے عبارت ہے،اب رحلت کے بعد اشرافیہ کے نرغے میں آگئے ہیں ۔ہم نے ایسے ہی میلے کا ایک منظر کراچی میںساحل کے قریب ایک بڑے و پرتعیش ہوٹل میں بھی دیکھا تھا،جہاں شرکازرق برق ملبوسات ، بڑی ولمبی گاڑیوں میں آئے تھے۔سوال چکاچوندی سے پیدا نہیں ہوتا، ان کی دو عملی سے بنتا ہے۔ یہ جب بڑے ہوٹل میں قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں،باہر ان کے ڈرائیورو ’خدام ‘ فٹ پاتھ پر گھنٹوں بھوکے پیاسے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ یہ ’ ناتواں طبقہ ‘ فیض فیسٹیول میں شاداں اُن ــ’عقابوں ‘ کے زخم رسید ہ ہوتے ہیں ، جن پر فیض صاحب یوں تبرا بھیجتے ہیں۔

جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے

اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں

نا توانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب

بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں

آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ

اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

ذرا فیض فیسٹیول کے شرکا کے ہاں ـــ’نوکری‘کرنے والوں سے تو کوئی پوچھے کہ ان کے ساتھ ان کے نام نہاد لبرل آقائوں کا ـ’حُسنِ سلوک‘کس جدت کا استعارہ ہوتا ہے۔ یہی تو وہ محروم طبقہ ہے جن کیلئے جدوجہد فیض صاحب کا نصب العین رہا۔

عاجزی سیکھی، غریبوں کی حمایت سیکھی

یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے

بڑے ہوٹلوں میں فیض فیسٹیول معیوب نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ فیض فیسٹیول میں غریب ،غریب کی گردان کرتےہیں ،کیا وہ کبھی غریب بستیوں میں گئے ہیں ؟ اگر نہیں ،تویہ کھلا تضاد ہے ۔فیض صاحب نے ایک ہی طرح کا شغل فرمانے والے بظاہر باہم متصادم ایسے عناصر کی کیا خوب نقاب کشائی کی ہے۔

تمہیں کہو رند و محتسب میں ہے آج شب کون فرق ایسا

یہ آکے بیٹھے ہیں میکدے میں ،وہ اٹھ کے آئے ہیں میکدے سے

سچ یہ ہے کہ یہ نام نہاد ترقی پسندعوامی ترقی کی راہ میں بالکل اُسی طرح مزاحم ہیں ،جس طرح انتہا پسند عناصر،بلکہ ان لبرل اشرافیہ کو تو پتہ ہی نہیں ہے کہ وہ جن غریبوں کے نام پر نام کمارہے ہیں ،وہ غریب مملکت خداد داد میں رہتے کہاں ہیں؟ایک عرصے قبل ایک تقریب کے دوران کراچی میں منعقدہ فیض فیسٹیول کے ایک دولت مندکامریڈ سے ملاقات ہوئی۔ اظہار ’’عقیدت‘‘کے بعد عرض کیا،سر! آپ مجھے ایک ماہ قبل گیدڑ کالونی (لانڈھی کراچی )میں نظر آئے تھے،وہ حیران ،گھورنے لگے، ہم نے فوری کہا جی زبان پھسل گئی،مچھر کالونی میں دیکھا تھا آپ کو!بے ساختہ بولے، یہ کہاں ہے؟ہم،ہم کلام ہوئے ، جہاں آپ فیض فیسٹول میں شریک تھے،اس سے پانچ منٹ کی مسافت پر یہ کالونی ہے،آپ کے ’ڈیفنس‘سے بھی صرف اورصر ف 15منٹ کا راستہ ہوگا؟میرے سراپے کا جائزہ لینے کے بعد پوچھا ،تم کہاں رہتے ہو؟میں نے کہا جی یہاں سے میری رہائش ’بیوہ کالونی‘اور ـ’کنواری‘کالونی ہی کی طرح دور ہے۔متجسس ہوکر فرمانےلگے ،کنواری کالونی کا نام کیسے پڑا۔ہم نے عرض کیا کہ ایک یتیم لڑکی اپنی والدہ کے ساتھ رہتی تھی،نیک چلن،خوش شکل،صوم و صلوٰۃکی پابند،مگر شادی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوسکی تھی،جب اُس کی ماں داعی اجل کو لبیک کہنے لگی،تو چھت پر واحدسائبان ’آسماں ‘کی طرف نگاہیں ،اُٹھاتے ہوئے خواستگارہوئی،اے میرے رب،میرے بعد اس ’کنواری‘کی عفت و عصمت کی حفاظت فرما۔میرے خیال کے مطابق ایسے اس بستی کا نام ’کنواری‘کالونی پڑا ہوگا۔اظہار تاسف کیا اور فرمایا،ان غریبوں کی زندگی پھر’نہ جانے‘ کیسے بسرہوتی ہوگی،ناچیز ملتمس ہوا،سر! کیا آپ کو اب تک اس کا ادراک نہیں ہوسکاہے،ایک ماہ قبل تو بڑے جوش وجذبے سے آپ نے فیض صاحب کا یہ شعر فیسٹول میں پڑھا تھا اور ماڈرن لڑکے اور لڑکیوں کی داد خوب سمیٹی تھی۔

زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں

ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

ہم پر برہم ہونے کی بجائےازراہ کرم گویا ہوئے ، نہ جانے کب ان بے چاروں کے دن بدلیں گے؟اس کوتاہ قد کا جواب تھا:جب عوام کو اس حالت تک پہنچانے والےمذہبی انتہاپسند اور لبرل فاشسٹوں کے اصل چہروں کو وہ پہچان لینگے.....

تازہ ترین