• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھینس چوری سے لے کر ملک ٹوٹنے کی وجوہات تلاش کرنے تک جتنے کمیشن ہمارے ملک میں بنے ہیں شاید ہی کہیں اور بنے ہوں ۔حمود الرحمن کمیشن ،ایبٹ آباد کمیشن، میمو گیٹ کمیشن …یوں لگتاہے جیسے کمیشن کے بغیر ہمارا گذارا ہی نہیں۔ ہر بڑے سانحے (حالانکہ لفظ ”سانحہ“ بذات خود خاصا بڑا ہے )کے بعد کمیشن بنا کر ہم مطمئن ہو جاتے ہیں اور یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اس کمیشن کی سفارشات پر عمل کرنے کے لئے آسمان سے کوئی مخلوق ٹپکے گی لہٰذا تب تک راوی چین ہی چین لکھے اور اگر وہ چین کے علاوہ کچھ اور لکھے تو ایسے راوی کو گولی سے اڑا دینا چاہئے۔
اکتالیس برس قبل جب ہمارا ملک دو ٹکڑے ہوا تو اس سانحے پر بھی ہم نے کمیشن بنایا لیکن اس کی سفارشات پر عمل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی حالانکہ اس سے متعلق چند باتیں تو بالکل سامنے کی تھیں جن کے نتائج خاصے بھیانک نکلے۔مثلاً1970میں جنرل یحییٰ خان نے ”لیگل فریم ورک آرڈر“ (ایل ایف او)جار ی کیا جس کے تحت 1970کے عام انتخابات کروائے گئے جو پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات مانے جاتے ہیں ۔اسی ایل ایف او کی ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر قومی اسمبلی اپنا اجلاس بلائے جانے کے 120دنوں کے اندر اندر آئین نہیں بنا پاتی تو وہ اپنے آپ ختم ہو جائے گی ۔ اس ایل ایف او کے تحت صرف قومی اسمبلی کے انتخابات کروائے جانے چاہئیں تھے نہ کہ تمام صوبائی اسمبلیوں کے !ممکن ہے قومی اسمبلی وجود میں آنے کے بعد ایسا آئین تشکیل دیتی جس میں صوبوں کی ضرورت ہی نہ رہتی ،ممکن ہے اسمبلی ون یونٹ بنا دیتی ،ممکن ہے اسمبلی صوبوں کی تعداد کم زیادہ کر دیتی ،ممکن ہے اسمبلی کہتی کہ ملک میں خلافت یا بادشاہت ہوگی یا پھر صدارتی نظام ہوگا ! سو ایسی صورت میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروانے کی کیا تُک کیا تھی ،یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے ۔
مزید لطیفہ یہ ہے کہ انتخابات کے نتائج کے بعد جنرل یحییٰ نے شیخ مجیب الرحمن سے ڈھاکہ میں ملاقات کی اور کہا کہ یہ مستقبل کا وزیر اعظم ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت تک تو اسمبلی کا اجلاس بلوایا گیا تھا اور نہ ہی آئین بنا تھا تو کوئی یہ کیسے کہہ سکتا تھا کہ آئندہ ملک میں فلاں شخص وزیر اعظم ہوگا ،صدر یا پھر چانسلر!
انتخابات سے قبل جنرل یحییٰ نے مارشل لاء ریگولیشن (MLR)59بھی جاری کیا جس کے تحت سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی کہ وہ کوئی بھی ایسا پروگرام نہیں دے سکتیں جو نظریہ پاکستان یا ملکی سالمیت کے خلاف ہو۔اس پر نظریہ پاکستان کے ٹھیکیداروں نے جنرل یحییٰ کی بڑی واہ واہ کی اور اسے ایک مجاہد کا درجہ دے دیا۔لیکن جب مجیب نے اپنے چھ نکات پیش کئے تو اس MLRکے تحت ان چھ نکات پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئے جس سے ان چھ نکات کو legitimacyمل گئی اور انہی کی بنیاد پر مجیب نے الیکشن میں حصہ لیااور مشرقی پاکستان کی 162میں سے 160نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی۔
مغربی پاکستان کے نتائج البتہ حیران کن تھے۔یہاں نومولود پی پی پی نے 138میں سے 81نشستیں حاصل کیں تھی ،باقی 57نشستیں 7سیاسی جماعتوں کے اور 15آزاد امیدواروں کے اتحاد میں تقسیم ہوئیں۔ اصولی طور پرہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سیدھے طریقے سے شیخ مجیب کو حکومت بنانے کی دعوت دی جاتی جو کہ اس کا حق تھا چاہے وہ جیت چھ نکات کی بنیاد پر ہی ملی تھی۔جن لوگوں کا استدلال ہے کہ شیخ مجیب کے چھ نکات ایک آزاد ملک کی بنیاد رکھ رہے تھے، ان کے لئے عرض ہے کہ شیخ مجیب کو تو پورے پاکستان کی قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوئی تھی ،اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ پورے پاکستان سے دستبردار ہو کر صرف مشرقی پاکستان پر اکتفا کرتا ،جبکہ بھٹو مرحوم نے بھی اس کے ”ساڑھے پانچ“ نکات مان لئے تھے ۔رہی بات پورے پاکستان سے نمائندگی حاصل کرنے کی تو کونسل مسلم لیگ ،NAP اور JUIنے عوامی لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لی تھی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو نشستیں مل گئیں اور مغربی پاکستان کی ان جماعتوں کو مشرقی پاکستان میں نمائندگی مل گئی ۔مگر بھلا ہو نظریہ پاکستان کے علمبرداروں کا اور نام نہاد دینی جماعتوں کا جنہوں نے اس سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو سرے نہ چڑھنے دیا۔
بجائے اس کے کہ ہم عوام کے منتخب نمائندوں کو ان کا حق دیتے ،ہم نے وہاں فوج کشی کردی ۔فوجی آپریشن کے نتیجے میں عوامی لیگ کے جو رہنما اور کارکن ملک چھوڑ کر بھاگے ،ان کی نشستیں یہ کہہ کر خالی قرار دے دی گئیں کہ اگر وہ فلاں تاریخ تک حاضر نہ ہوئے تو ان کی نشست پر ضمنی انتخاب کروایا جائے گا ۔ایسی 78قومی اسمبلی کی نشستوں پر انتخاب تو خیر کیا ہونا تھا ،یہ نشستیں پی پی پی ،جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کے دھڑوں میں یوں تقسیم کردی گئیں جیسے کوئی دکاندار بچوں کو سودا بیچنے کے بعد ”چونگا“ تقسیم کرتا ہے ۔
پھر ہمارا ملک ٹوٹ گیا!اس سانحے کے نتیجے میں جو کمیشن تشکیل دیا گیا اس کی سفارشات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ”جنرل یحییٰ خان ،جنرل عبد الحمید خان ، لیفٹیننٹ جنرل ایس جی ایم پیرزادہ ،میجر جنرل عمر،لیفٹیننٹ جنرل گل حسن ،میجر جنرل مٹھا کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے …ان ملزمان پر اس الزام میں بھی مقدمہ چلایا جائے یا کورٹ مارشل کیا جائے کہ انہوں نے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان دونوں مقامات پر جنگ لڑنے میں اپنے فرائض سے غفلت برتی …ان حالات کے بارے میں محکمہ جاتی تحقیقات کی جائیں جن میں میجر جنرل رحیم خان (موجودہ پاکستان آرمی کے چیف آف جنرل سٹاف ) نے اپنی فوج کو جو 39(ایڈہاک) ڈویژن پر مشتمل تھی چھوڑ دیا اور ایسی جگہ منتقل ہو گئے جو ان کی ذمہ داری کے علاقے سے باہر تھی اور ان حالات کی انکوائری بھی کی جائے جن میں انہیں مشرقی پاکستان سے فرار کی تحقیقات کئے بغیر چیف آف جنرل سٹاف مقرر کر دیا گیا“
ان کے علاوہ دیگر فوجی افسران جیسے جنرل نیازی، پاکستان نیوی کے کمانڈر گل زریں ،لیفٹیننٹ جنرل ارشاد احمد خان ،میجر جنرل زاہد عابد اور میجر جنرل بی ایم مصطفٰی وغیر ہ کے خلاف بھی کی کاروائی کی سفارش کی گئی مگر نتیجہ صفر بٹا صفر۔تمام لوگوں نے بغیر کسی ٹینشن کے اپنی زندگی باقی دن گذارے ،کتابیں لکھیں ،مختلف پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑے اور پھر پورے فوجی تزک و احتشام کے ساتھ دفن ہوئے ۔جن کو وفات کے وقت فوجی عزت نہ مل سکی۔ انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور تادم مرگ اپنا کلا اونچا رکھا ،نہ جانے انہیں کس بات کا فخر تھا!
جب ہمار ے90ہزار فوجی بھارتی قید میں تھے ،ان دنوں ریڈیو پر ان کی ”خیریت “سے متعلق پیغامات نشر کئے جاتے جو کچھ اس قسم کے ہوتے ”میں حوالدا ر محمد حسین ہوں ،میرا تعلق رجمنٹ نمبر 115سے ہے ۔اگر میرے گھر والے سن رہے ہیں تو یہ جان لیں کہ میں زندہ ہوں ۔“ان پیغامات کے کے حوالے سے مجید امجد نے ایک 25دسمبر 1971ء کو ایک نظم لکھی جو کچھ یوں تھی:
ریڈیو پر اک قیدی مجھ سے کہتا ہے
’میں سلامت ہوں ،سنتے ہو ،میں زندہ ہوں “
بھائی ،تو یہ کس سے مخاطب ہے …
ہم کب زندہ ہیں
ہم تو اپنی اس چمکیلی زندگی کے لئے تری مقدس زندگی کا یوں سودا کرکے
کب کے مر بھی چکے ۔
یقینا مجید امجد نے ٹھیک کہا تھا ،ہم مرچکے تھے …اور مسلسل مر رہے ہیں !
تازہ ترین