لندن (مرتضیٰ علی شاہ) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کے اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ایک معاملے کے نوٹس کے بعد برٹش پاکستانی بیرسٹر فہد ملک کے قتل کیس کی روزانہ بنیاد پر سماعت ہو رہی ہے۔ فہد ملک کے قتل کیس کو برٹش ایم پیز کے ایک گروپ نے ہائوس آف کامنز میں چیف جسٹس سے ملاقات کے دوران اٹھایا تھا۔ ایم پیز نے جب چیف جسٹس کی توجہ اسلام آباد میں دو سال قبل قتل ہونے والے برطانوی بیرسٹر فہد ملک کیس کی جانب مبذول کرائی تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس میں تاخیر ہوئی ہے اور میں نے خود اس کیس کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ اس معاملے کو ایک ماہ کے اندر نمٹا دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے انسداد دہشت گردی کے جج کو سپریم کورٹ بلا کر فہد ملک کیس میں تاخیر کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ انصاف فراہم کیا جائے گا۔ پاکستان اوورسیز پاکستانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ چیف جسٹس نے اس معاملے کا جائزہ اس وقت لیا، جب فہد ملک کے بھائی جواد ملک نے ایک ماہ قبل سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں درخواست بھیجی تھی اور انصاف کی تیز تر فراہمی کی استدعا کی تھی۔ انہوں نے چیف جسٹس کو لکھا تھا کہ دو سال گزرنےکے باوجود کیس کا ٹرائل کنڈکٹ نہیں کیا گیا۔ حیران کن طور پر انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک نے ٹرائل شروع ہونے سے قبل ہی دہشت گردی کی کلاز کو نکالنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کیس عام عدالت کو منتقل کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنی درخواست میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے جولائی 2018 میں کیس دوبارہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کو ٹرانسفر کیا اور ہدایت کی کہ ٹرائل 60 دن کے اندر مکمل کیا جائے لیکن تین ماہ گزرنے کے باوجود کیس زیر التوا ہے۔ ہائی کورٹ کی ہدایت کے باوجود ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ میں آپ سے استدعا کرتا ہوں کہ آپ اس معاملے کا نوٹس لے کر میری درخواست پر مناسب حکم جاری کریں، آپ کے نوٹس کے بغیر ہمیں انصاف کی امید نہیں ہے۔ اب انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزمان پر چارج عائد کئے اور کیس کا ٹرائل شروع کیا، اب تک 10 گواہان عدالت میں پیش ہو کر اپنے بیانات قلمبند کروا چکے ہیں اور ابھی 10 گواہ باقی ہیں۔ تین ملزمان پر فرد جرم عائد کی جا چکی ہے، جن میں راجہ ارشد محمود، نعمان یعقوب کھوکھر اور راجہ ہاشم خان شامل ہیں۔ شالیمار پولیس سٹیشن نے 15 اگست 2016 کو ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔ اس کیس کی آخری سماعت جمعرات 29 نومبر کو ہوئی، جس میں پراسیکیوشن نے ایک گواہ کا ایگزامینیشن مکمل کیا تھا لیکن سینئر ڈیفنس قونصل کی عدم موجودگی کی وجہ سے گواہ کا کراس ایگزامینیشن نہیں ہو سکا۔ کیس کی سماعت منگل 4 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔