لندن (مرتضیٰ علی شاہ) سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال کی جانب سے کئے گئے اس دعوےپر کہ سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک کے الطاف حسین کے ساتھ خصوصی تعلقات قائم تھے اور ان کو الطاف حسین تک جتنی رسائی حاصل تھی ایم کیو ایم کے رہنمائوں کو بھی وہ میسر نہیں تھیتبصرہ کرتے ہوئے کہا مصطفیٰ کمال کے اس دعوے کو ان کا تصوراتی واہمہ قرار دیا ہے۔ مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے رحمٰن ملک نے کہا کہ میرے بارے میں مصطفیٰ کمال کی باتیں بے بنیاد ہیں اور ان کی حیثیت ایک لطیفے سے زیادہ نہیں ہے جبکہ لندن میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے کہا کہ رحمٰن ملک اپنے طور پر الطاف حسین سے ملاقاتیں کرتے تھے وہ پاکستان ہائی کمیشن سے مدد نہیں مانگتے تھے کیونکہ وہ حکومت پاکستان کی جانب سے یہ ملاقاتیں نہیں کرتے تھے بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے کرتے تھے۔ یہ حقیقت ریکارڈ پر ہے کہ رحمٰن ملک جب تک وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز رہے الطاف حسین کے ساتھ ان کے خصوصی تعلقات قائم رہے اور ان کے ان تعلقات کو پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں ہی ناپسند کرتے تھے، ایم کیو ایم اس تعلقات سے اس لئے متنفر تھی کیونکہ ایم کیو ایم کے رہنمائوں کا خیال تھا کہ رحمٰن ملک ان کے قائد سے جو وعدے کرتے ہیں انھیں پورا نہیں کرسکتے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اس لئے اسے پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ رحمٰن ملک ان سب کو نظر انداز کرتے تھے اور یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ صرف آصف زرداری اور سٹیک ہولڈرز کو جوابدہ ہیں اور الطاف حسین ان پر اعتماد کرتے ہیں۔رحمٰن ملک نے پاکستان ہائی کمیشن سے پروٹوکول نہیں لیتے تھے اور ملک کے وزیر داخلہ کی سرکاری میٹنگز کرتے تھے اور پاکستان ہائی کمیشن کے سفارت کار جن میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن بھی اس سے لاعلم رہتے تھے اورانھیں پاکستانی ٹیلی ویژن پر چلنے والے ٹیکرز دیکھ کر یہ پتہ چلتاتھا کہ لندن میں کیاہورہاہے۔ایم کیوایم اس بات سے انکار کرتی ہے کہ رحمٰن ملک ان کو پریس ریلیز ڈکٹیٹ کراتے تھے لیکن ان پریس ریلیز میں پاکستان پیپلز پارٹی کی نہیں بلکہ رحمٰن ملک کی توصیف کی جاتی تھی اور ایسا الطاف حسین کی ہدایت پر ہوتاتھا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ رحمٰن ملک اور الطاف حسین باقاعدگی کے ساتھ الطاف حسین کے مل ہل والی قیام گاہ پر ملاقاتیں کرتے تھے اورزیادہ تر ایسا ہوتاتھا کہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ارکان ان ملاقاتوں میں شریک نہیںہوتے تھے، ان ملاقاتوں میں رحمٰن ملک کے ساتھ صرف ایک شخص ہوتاتھا جو کوئی سرکاری عہدیدار نہیں تھا بلکہ رحمٰن ملک کا بھانجا تھا۔ رحمٰن ملک نے الطاف حسین کے ساتھ درجنوں ملاقاتیں کیں لیکن کسی بھی ملاقات میں پاکستان پیپلزپارٹی کاکوئی بھی رکن شریک نہیں تھا، اجلاس کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما ان دونوں کے ساتھ شامل ہوتے تھے اور پھرپریس ریلیز کی ڈکٹیشن کرائی جاتی تھی جو قومی مصالحت ،دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پی پی ایم کیو ایم الائنس کے حوالے سے لفاظی پر مبنی ہوتی تھی۔رحمٰن ملک ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ وہ قومی مفادات کے تحت کام کررہے ہیں اور وہ قومی مفاہمت کو آگے بڑھنے کابہترین طریقہ ہے ،ان کاکہناتھا کہ ایم کیو ایم شہری سندھ کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور شہر کی سب سے بڑی پارٹی کے ساتھ پی پی کااتحاد فطری امر ہے۔