SMS: #NAN (space) message & send to 8001
ماشاء اللہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی تعداد322 ہو گئی ہے مگر قوم کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ وہی مہنگائی، صفائی کی خراب صورتحال عوامی حقوق کی عدم دستیابی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں کی خواہشات کے خلاف کوئی پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ ان کے دروازوں پر بڑے بڑے تالے اور بندوق بردار پہرے دار موجود ہیں اگر کوئی سادہ لوح شہری ادھر سے گزر بھی جائے تو اس کا سانس بند ہو جاتا ہے اور آخر میں اس کو تخریب کار قرار دے دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شہری اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے احتجاج کرتا ہے تو اس کو اتنی درد ناک سزائیں دی جاتی ہیں کہ وہ اپنی نسلوں کو بھی کہہ جاتا ہے کہ ایسا نہ کرنا۔ ’’ جھوٹ‘‘ بولنے کا فن موبائل کے ذریعے اس قدرعام ہوچکا ہے جس کا تصور بھی محال ہے کسی گلی میں کھڑا ہوا شخص موبائل پر کہہ دیتا ہے کہ میں کسی بڑے ہوٹل سے بول رہا ہوں ۔ اگر ہم سچ بولنا شروع کردیں تو ہمارے اسی فیصد گناہ معاف ہوسکتے ہیں۔ یہ عذاب ہمارے مسلسل جھوٹ بولنے کا شاخسانہ ہے۔ جبکہ ہمارا مذہب ہمیں اس فعل سے باز ر کھتا ہے۔ نیلسن مینڈیلا افریقہ کا ایک عیسائی لیڈر تھا جس نے اٹھائیس سال جیل میں گزارے ۔ اس کی قوم کے افراد’’ گوروں‘‘ کے ساتھ ان کے ہوٹلوں میں اور سڑک پر نہیں چل سکتے تھے۔ ان کے بچوں کو ا سکول میں داخلہ نہیں ملتا تھا۔ انگریزوں نے ان پر اتنی پابندیاں لگائی ہوئی تھیں کہ کسی ادارے میں ان کا گھسنا محال تھا۔ مگر سچ بولنے کی بنیاد پر نیلسن مینڈیلا کا مجسمہ برطانیہ کے سب سے مشہور چوک میں نصب کیا گیا اور اسے امن کا دیوتا اور سب سے بڑا نوبل پرائز دیا گیا۔ ہمارے یہاں ہر اچھے کام کی مخالفت اور اس کے کرنے والوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ابھی خواتین کے حقوق کا اعلان ہوا ہے جو ہماری آبادی کا نصف ہیں۔ جب میں لوگوں کی شادیوں میں شرکت کرتا ہوں تو لوگوں کے جاہ و جلال دیکھ کر اور شان و ٹھاٹ دیکھ کر میں لوگوں سے کہتا ہوں کیا ہمارے نبیؐ نے حضرت فاطمہؓ کی شادی مسجد نبوی میں اس طرح کی تھی۔ خدا کے واسطے اپنے نبی کی سنت کی پیروی کریں مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے اور اپنے نبیؐ کے احکامات کی پیروی نہ کرنے پر ہم پر یہ تمام سختیاں آئی ہوئی ہیں۔ آخر خوف کیا ہے اور کیوں ہے کیا ہم خدا کی رحمتوں سے اتنے مایوس ہو چکے ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد دولت، جھوٹ، آسائشیں رہ گئی ہیں۔ میں نے جب ایک ہوٹل والے سے یہ پوچھا جو انتہائی نیک انسان تھا کہ اس نے اپنا ہوٹل کیوں بند کر دیا ہے اس کی والدہ نے مجھے جواب دیا کہ ہم حرام حلال میں تمیزرکھتے ہیں۔ لوگوں کو چند پیسوں کی خاطر حرام نہیں کھلا سکتے۔ جب میں نے ایک بڑے سرمایہ دار پلازے کے مالک سے یہی بات کہی اس نے کہا کہ اس کے بغیر پلازہ چلتا ہی نہیں کس قدر خوف اور بزدلی کی بات ہے کہ یہ فضا بن گئی ہے۔ میں حیران ہوں کہ قائد اعظم نے اور علامہ اقبال نے کیا اسی لئے یہ ملک قائم کیا تھا۔ جس کے قائم کرنے میں دس لاکھ انسانوں نے قربانیاں دیں۔ چھوٹا سا ننھا ملک اسرائیل ہمارے ملکوں کو جب للکارتا ہے تو ہمارے حکمرانوں پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور ہم اس بات سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔ میں دعوے سے یہ بات کہتا ہوں کہ عبید امین ، صدر ناصر اورصدر صدام حسین بھی انہی کی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے نشان عبرت بنا دیئے گئے۔ علامہ اقبال نے لکھا ہے کہ ہم جہاں کھڑے ہوتے تھے شیروں کے پائوں اکھڑ جاتے تھے مگر آج جبکہ اسلامی ملکوں کے پاس ہر قسم کی جدید فوجی قوت موجود ہے وہ اسرائیل کی سازشوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ میں اور سارے عالم اسلام کے لوگ ان فلسطینیوں کو سلام کرتےہیں جو آج بھی جدید ٹینکوں اور جہازوں کا مقابلہ، پتھروں سے کررہےہیں۔ میں لیلیٰ خالد جو فلسطینی مجاہدہ تھی کو کھڑے ہو کر سلام پیش کرتا ہوں جس نے جہاز اغوا کر کے یورپی ملکوں کی مالی قوت کو توڑ دیا تھا ہمارے یہاں خواتین کے حقوق کا بل آیا ہے جس کو ہمیں سپورٹ کرناچاہئے مگر ہم اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ کیا فاطمہ جناح نے جو قائداعظم کی ہمشیرہ تھیں فیلڈ مارشل محمدایوب خان کا صدارتی امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ نہیں کیا۔ جمہوریت کی جدوجہد کو تقویت نہیں پہنچائی۔ پاکستان میں عورتوں کی آبادی نصف ہے۔ قربانی کا جذبہ صرف مردوں کی میراث نہیں۔ ان کی قربانیوں سے ان شہیدوں نے جنم نہیں لیا اور ان کی گودوں میں پڑھ کر جوان ہوئے۔ جنہوں نے پاکستان کو بچانے کے لئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ خدا را عورتوں کے حقوق کی مخالفت کرنے والے اس بات کو سمجھیں کہ یہ وہی مائیں، بہنیں، بیٹیاں ہیں جنہوں نے ان شہیدوں کو جنم دیا۔ جو اس وطن کی آن پر مر مٹے۔ اگر یہ قابل فخر خواتین اپنے بچوں بیٹوں اور شوہروں کو خوش دلی سے پاکستان کی حفاظت کیلئے نہ بھیجتیں تو کیا ہوتا۔ کتنی بڑی قربانی ملک کیلئے خواتین نے دی ہے۔ آج بھی میں دعوے سے یہ بات کہتا ہوں کہ خواتین کا کردار آہنی چٹانوں جیسا ہے۔ جو اپنے بیٹوں، بھائیوں، شوہروں کو میدان جنگ میں خوش دلی کے ساتھ بھیجتی ہیں اور پھر تمام عمر ان کی شہادت پر فخر کرتی ہیں۔ جو لوگ خواتین کے حقوق کی مخالفت کررہے ہیں وہ ہزار بار سوچیں کہ کیا یہ ان کا اچھا اقدام ہے کہ قوم کی نصف آبادی کو جنہوں نے قربانی کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کی ہیں ان کے حقوق سے محروم کردیا جائے۔ وہ قابل فخر بیٹے جو پائلٹوں کی شکل میں اورمجاہدوں کی شکل میں میدان جنگ میں اپنا خون دیتے ہیں اور ملک کی مٹی سیراب کرتے ہیں۔ عورت عظیم قربانیوں کا نام ہے جس کی حمایت کرنے پر خوف کیوں طاری ہے ۔ کیا قیام پاکستان کی جنگ میں لاکھوں عورتیں شہید نہیں ہوئیں؟ سوچئے اور صرف سوچئے۔