لاہور(صابر شاہ ) ا یم کیو ایم اور اس کے قائد الطاف حسین پر قتل و غارت اور ملک توڑنے کے سنگین الزامات عائد کیے جا تے رہے، پارٹی ہمیشہ الزامات کی تردید کرتی رہی اور بے بنیاد قرار دیا جبکہ حکومت ان الزامات کو ثابت نہیں کر سکی اور یہ سلسلہ جاری رہا۔ الطاف حسین نے کراچی یونیورسٹی میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن( اے پی ایم ایس او) کی بنیاد 11 جون 1978کو رکھی۔ ایم کیو ایم پر 18مارچ1948سے یا اس روز سے جب باضابطہ طور پر اس پارٹی کا قیام عمل میں آیا،مختلف فوجی حکومتوں ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں، یونائیٹڈ اسٹیٹس بیورو آف سیٹیزن شب اینڈ امیگریشن سروسز، ایمنسٹی انٹر نیشنل ، ایم کیو ایم حقیقی کے آفاق احمد ، اجمل پہاڑی ، صولت مرزا اورمصطفیٰ کمال ودیگر کی جانب سے اس الزامات لگتے رہے ہیں۔ جنوری 2013میں بدنام زمانہ قاتل شاہنواز المعروف اجمل پہاڑی کی جانب سے کیمرہ کے سامنے 111افراد کے قتل کا اعتراف کرنے کے باوجود ، جب اسے رہائی ملی تو اس کے چند روز بعد اسے دوبارہ گرفتار کرلیا گیا ۔ اس سے پہلے 18مارچ2011کو کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا، اس کا کہنا تھاکہ اس کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے اور اسے بھارتی فوج کے5افسران نے تربیت دی۔ اس نے اعتراف کیا تھاکہ2009میں کراچی میں محرم میں ہونیوالے بم دھماکے میں الطاف حسین ملوث تھے۔ مارچ2015میں ایک اور ٹارگٹ کلر نے آکر ٹی وی پر کہا تھاکہ وہ ایم کیو ایم کا رکن تھا اور اس نے پارٹی سربراہ الطاف حسین کے حکم پر 5 جولائی1997کو اس وقت کے کے ای ایس سی کے چیئرمین شاہد حامد کو قتل کیا تھا۔ اس وقت ایم کیو ایم کے سربراہ کاکہنا تھاکہ بغیر ثبوت کے صولت مرزا کے بیان سے پارٹی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اجمل پہاڑی اور صولت مرزا کے اعترافی بیانات کے بعد ایم کیو ایم کے کسی رہنما کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی شروع نہیں کی گئی ، اور اب تقریباً31ماہ بعد کراچی کے سابق میئرسید مصطفیٰ کمال اچانک نمودار ہوگئے اور الطاف حسین پر بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے تعلقات کے الزامات عائد کررہےہیں، انہوںنے یہ اشارہ بھی دیا کہ ایم کیو ایم کے سربراہ کا عمران فاروق کے قتل سے بھی کوئی تعلق ہے۔ لیکن شاید الطاف حسین کو قتل، پرتشدد کارروائیوں،بھتہ خوری،زمینوں پر قبضے، اغواء ، پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے اورنافرمانی پر اپنے ہی وفاداروں کو قتل کرنے جیسے الزامات کا سامنا کرنی کی عادت پڑچکی ہے۔ لیکن آج تک ان کے ساتھ کچھ نہیں ہوا۔ 1988سے1997تک جب بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی دو دو حکومتیں آئیں تو انہیں اپنی اپنی وفاقی حکومتیں قائم کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ووٹوں کی ضرورت پڑی۔ اس کے بعد جنرل(ر) مشرف کے این آر او کے ذریعے8041افراد پر کرپشن ، منی لانڈرنگ اور قتل کے مقدمات ختم کردیئے گئے ، اس سے فائدہ اٹھانے والوںمیں میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں سمیت الطاف حسین بھی شامل تھے۔