امریکی ریاست کنیٹی کٹ کے ایک پرائمری اسکول میں ایک جنونی نوجوان کی فائرنگ کے نتیجے میں 20 بچوں سمیت 27/افراد کی ہلاکت کے واقعے نے پورے امریکہ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور امریکہ میں شاید ہی کوئی ایسا خاندان ہو جس کی آنکھیں اس سفاکانہ واقعے پر اشکبار نہ ہوئی ہوں۔ یہ اندوہناک واقعہ جمعہ کے روز کنیٹی کٹ کے قصبے نیوٹون میں واقع سینڈی ہک اسکول میں پیش آیا۔ قاتل نوجوان 20 سالہ ایڈم لینزا نے خون کی ہولی کھیلنے سے پہلے گھر میں موجود اپنی ماں کو قتل کیا جس کے بعد وہ اسکول پہنچا اور زبردستی اندر داخل ہوکر بلااشتعال فائرنگ کرکے 20 بچوں اور اسکول کی پرنسپل سمیت 27/افراد کو ہلاک کردیا تاہم اس گھناؤنے فعل کے بعد ملزم نے خودکشی کرلی۔ مرنے والے بچوں کی عمریں10 سال سے کم تھیں اور ان کے سامنے پوری زندگی پڑی تھی لیکن سفاک قاتل نے ان بچوں سے سب کچھ چھین لیا۔ واضح ہو کہ قاتل نوجوان اپنی ماں کے ساتھ رہائش پذیر تھا اور اس کے والدین کے درمیان کئی سال قبل طلاق ہوچکی تھی۔ واقعے کے بعد امریکہ کئی دن تک سوگ میں ڈوبا رہا۔ امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے جذباتی انداز میں کہا کہ اس وقت ہمارے دل ٹوٹے ہوئے ہیں، ہم پہلے بھی اس طرح کے واقعات دیکھ چکے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات کریں۔ بعد میں انہوں نے کنیٹی کٹ جاکر ہلاک ہونے والے افراد کیلئے منعقدہ دعائیہ تقریب میں شرکت کی اور ہلاک ہونے والے تمام بچوں اور بڑوں کے نام لئے اور کہا کہ ہم انہیں نہیں بھولیں گے۔ امریکی صدر نے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس غم میں تنہا نہیں، پورا ملک آپ کے ساتھ ہے، ہم ایسے سانحات مزید برداشت نہیں کرسکتے، میرے دور صدارت میں قتل عام کا یہ چوتھا واقعہ ہے، ان واقعات کو روکنے کیلئے امریکہ کو تبدیل ہونا ہوگا۔تقریب میں امریکہ کے بڑے مذاہب کے نمائندوں نے مثالی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرنے والوں کیلئے دعائیں کیں، ایسے میں ماحول انتہائی جذباتی منظر پیش کررہا تھا۔ اس تاریخی موقع پر مقامی اسلامک سینٹر کے ایک کمسن طالبعلم نے قرآن پاک کی تلاوت کی جبکہ سینٹر کے ایک اور ممبر نے دعائیہ کلمات کہے۔
کنیٹی کٹ میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ امریکہ میں ہونے والے فائرنگ کے واقعات میں سب سے زیادہ اندوہناک واقعہ ہے جس میں اس قدر ہلاکتیں ہوئیں مگر یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل بھی امریکہ میں فائرنگ سے ہلاکتوں کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں ہر 4 ماہ بعد اسی طرز کے قتل عام کا کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہورہا ہے۔ 2007ء سے لے کر اب تک اس قسم کے20 بڑے واقعات پیش آچکے ہیں جس میں سیکڑوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ 2007ء میں ورجینیا میں ہونے والے فائرنگ کے واقعہ میں 32/افراد مارے گئے، اس سے قبل جولائی میں امریکی ریاست کولاراڈو کے سینما میں ایک شخص کی فائرنگ سے 12/افراد ہلاک ہوئے جبکہ اسی طرح اگست میں امریکی ریاست وسکاسن میں ایک سکھ گوردوارے پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں 6/افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ہر واقعے کے بعد امریکہ میں اسلحہ کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ایک نئی بحث جنم لیتی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دم توڑ جاتی ہے اور لوگ واقعہ کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ حالیہ قتل عام کے بعد بھی سیکڑوں مظاہرین وائٹ ہاؤس کے باہر جمع ہوئے جنہوں نے اسلحہ کی روک تھام کیلئے زیادہ سخت قوانین بنانے کا مطالبہ کیا۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں کے رہنے والے افراد جس طرح اسلحہ رکھنے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں اور اسے مردانہ زیور تصور کرتے ہیں اسی طرح امریکیوں میں بھی اسلحہ رکھنے کا رجحان دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ امریکہ میں جدید گنیں خریدنا معمول کی خریداری بنتی جارہی ہے، کوئی بھی شخص اسلحہ شاپ کے کاؤنٹر سے وجوہات اور ذاتی پس منظر (Background Check)بتائے بغیر بآسانی اسلحہ خریدسکتا ہے۔ امریکہ میں گنوں کی خریداری میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2012ء میں امریکیوں نے 16 ملین سے زائد گنیں خریدیں۔ دوسری طرف ایک اندازے کے مطابق2011ء میں امریکہ میں گنوں سے ہونے والی ہلاکتوں کے واقعات میں 10 ہزار سے زیادہ افراد کو اپنی جانوں سے محروم ہونا پڑا۔ واضح ہو کہ حالیہ واقعہ میں استعمال ہونے والی گن کا لائسنس قاتل نوجوان کی ماں کے نام پر تھا جس نے اسی گن سے اپنی ماں کو قتل کیا۔
مغربی ممالک میں مذہب سے دوری، بے راہ روی، خاندانوں میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح، پُرتشدد فلمیں، وڈیو گیمز اور ٹی وی شوز وہ عوامل ہیں جو لوگوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہوکر انہیں ذہنی مریض بنارہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی نے بھی امریکہ اور مغرب میں بسنے والے لوگوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جارہا ہے جس نے ان ممالک کے لوگوں کو معاشی پریشانیوں سے دوچار کرکے ذہنی و نفسیاتی مریض بنادیا ہے اور لوگ اپنی جان لینے سے قبل انتقامی طور پر دوسروں کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کررہے جبکہ اسکولوں میں سینئر طلباء کی جونیئر طلباء سے بدتمیزی اور غنڈہ گردی کے واقعات بھی کم عمر طلباء میں انتقامی جذبات پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں کیونکہ وہاں اسکولوں کی سطح پر بچوں کے نفسیاتی معائنے اور ان کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے رجحانات سے آگاہی کا کوئی سسٹم موجود نہیں۔
امریکہ میں ہونے والے اس سفاکانہ واقعے کو دہشت گردی کی ایک بہیمانہ شکل کہا جاسکتا ہے۔ اسکول کے معصوم بچوں سمیت دیگر افراد پر اندھادھند فائرنگ کرکے انہیں موت کی نیند سلادینا انتہائی درجے کا وحشیانہ عمل ہے جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق امریکی شہریوں کی بڑی تعداد اسلحہ رکھنے والوں کے حقوق کی حامی اور اسلحہ رکھنے پر پابندی کے خلاف ہے۔ حالیہ قتل عام سے ایک بار پھر امریکہ میں ”امریکہ کو گن سے پاک“ کرنے کے مباحثے نے زور پکڑلیا ہے اور صدر اوباما نے بھی قوم کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ ”گن کنٹرول“ کیلئے بطور صدر اپنی طاقت کا استعمال کریں گے۔ امریکہ کی ”گن لابی“ دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور لابی تصور کی جاتی ہے، ماضی میں امریکہ کو اسلحہ سے پاک کرنے کی جتنی بھی مہمات چلائی گئیں انہیں اس لابی نے کامیاب نہ ہونے دیا۔ گن لابی کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2008ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں امریکہ کی نیشنل رائفل ایسوسی ایشن نے کانگریس کے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے کیلئے 40 ملین ڈالرز سے زیادہ فنڈز دیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ گن لوگوں کو قتل نہیں کرتی بلکہ لوگ ایسا کرتے ہیں۔امریکہ میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والے بچوں کیلئے ہر آنکھ اشکبار ہے مگر ڈرون حملوں میں پاکستانی بچوں کی ہلاکت پر کوئی آنکھ اشکبار نہیں۔امریکی صدر بارک اوباما کو چاہئے کہ وہ اپنی توجہ اسلام فوبیا پر مرکوز کرنے کے بجائے ”گن کنٹرول“ پر مرکوز کریں اور اس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کیلئے معنی خیز عمل کا آغاز کرتے ہوئے امریکی معاشرے میں اسلحہ رکھنے کے بڑھتے ہوئے رجحانات سے نجات دلائیں۔ یہاں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ امریکہ میں ہونے والی اس بھیانک واردات کی تحقیقات درست تناظر میں کی جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ نوجوان نے قتل عام کس تناظر میں کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی صدر اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں یا ”گن لابی“ انسانی بنیادی حقوق کے نام پر ان کی کوششوں کو ایک بار پھر ناکام بنادیتی ہے۔