• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرائے کے سپاہی ہیں نہ بندوق،امریکا سے چین جیسے تعلقات چاہتے ہیں،ڈومور والے اب ہم سے مدد مانگ رہے ہیں،ہم صرف قومی مفاد دیکھیں گے،عمران خان

اسلام آباد(ایجنسیاں) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکا سے کبھی اس طرح کے تعلقات نہیں چاہتے جس میں پاکستان کی حیثیت کرائے کے سپاہی یا بندوق کی ہو ‘ اب وہی کریں گے جو عوام اورہمارے قومی مفادمیں ہوگا ‘ واشنگٹن کے ساتھ چین جیسے تعلقات چاہتے ہیں‘ سپر پاورکے ساتھ دوستی کون نہیں چاہے گا،امریکا کیلئے کرائے کے سپاہی ہیں نہ بندوق،ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹ کے جواب میں ٹویٹ ، ٹوئٹر کی جنگ نہیں بلکہ ریکارڈ کی درستگی تھی‘پاکستان میں طالبان کی خفیہ پناہ گاہیں نہیں‘ افغانستان میں امن کیلئے بھرپور تعاون کریں گے‘ افغان طالبان پر دباؤکا کہناآسان عمل کرنا مشکل ہے‘امریکا کو افغانستان سے 1989ءکی طرح جلدبازی میں نہیں نکلنا چاہئے‘ امریکا کو اسامہ کے بارے میں پاکستان کے ساتھ معلومات شیئر کرنی چاہئیں تھیں ، ممبئی حملے کرنے والوں کو انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں‘اس کیس کو اپنے انجام تک پہنچانا ہمارے اپنے مفاد میں ہے کیونکہ یہ دہشت گردی کی کارروائی تھی۔مہنگائی اوربے روزگاری بڑھانے والی آئی ایم ایف شرائط کوقبول نہیں کریں گے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ ٹوئٹر پر پیغاما ت کا تبادلہ امریکا کی جانب سے افغان مسئلہ کے فوجی حل کی غلط پالیسیوں کیلئے پاکستان کوموردالزام ٹھہرانے کا جواب تھا‘وزیراعظم نے دوٹوک طورپر کہاکہ ہم نے بارہا امریکا سے کہاہے کہ اس طرح کی خفیہ پناہ گاہوں کی نشاندہی کی جائے، ہم ان کے خلاف کارروائی کریں گے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس طرح کی خفیہ پناہ گاہیں نہیں ہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ اس وقت پاکستان میں 27 لاکھ افغان پناہ گزین مقیم ہیں‘پاکستان اورافغانستان کے درمیان سرحد کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے‘سرحد پر اس طرح کے لوگوں کی نقل وحرکت کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے‘اگر فرض کرلیں کہ 2 یا تین ہزار طالبان افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں تو یہ ان افغان پناہ گزین کیمپوں میں آسانی سے جاسکتے ہیں ۔وزیراعظم کا کہناتھاکہ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے، افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان سے جو کچھ ہوسکا وہ کریگا‘افغانستان کا 40فیصد حصہ افغان حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ افغا نستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکا کا ساتھ دیا تھا‘جب امریکا وہاں سے نکلاتوپاکستان کو عسکری گروپوں کا سامنا اور 40 لاکھ افغان پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھانا پڑا۔ اگرہم نائن الیون کے بعد غیر جانبدار رہتے تو اپنے آپ کو اس تباہی سے بچا پاتے جو جنگ میں شمولیت کی وجہ سے پاکستان میں ہوئی‘طالبان بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں قیام امن کیلئے انہیں امریکی مدد کی ضرورت ہوگی‘ وزیراعظم نے کہا کہ وہ کبھی بھی امریکا سے اس طرح کے تعلقات نہیں چاہیں گے کہ جس میں پاکستان کی حیثیت کرائے کے سپاہی کی ہو اور پاکستان کو پیسے کے بدلے پرائی جنگ لڑنا پڑے‘ ہم اپنے آپ کو کبھی بھی دوبارہ اس پوزیشن میں نہیں لائیں گے کیونکہ اس سے نہ صرف ہمیں بھاری جانی نقصان پہنچا ہے بلکہ ہمارے قبائلی علاقے تباہی کا شکار ہوئے اور ہماری عزت نفس کو بھی نقصان پہنچا‘ امریکی پالیسیوں سے عدم اتفاق کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ امریکا کے خلاف ہیں، یہ سامراجی طرز فکر ہے کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن ۔ ایک سوال پر وزیرعظم عمران خان نے کہاکہ معاملہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا نہیں بلکہ پاکستان پر عدم اعتماد کا ہے‘ یہ باعث شرم ہے کہ ہمارے اتحادی ہم پر اعتماد نہیں کر رہے‘امریکا کے ساتھ تعلقا ت میں گرمجوشی سے متعلق سوال پروزیراعظم نے کہاکہ ایک سپرپاورکے ساتھ دوستی کون نہیں چاہے گا۔ امریکا پاکستان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ افغان طالبان کے خلاف کارروائی کریگا لیکن افغان طالبان پاکستان کونشانہ نہیں بنارہے ، تحریک طالبان پاکستان اورالقاعدہ پاکستان کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ تحریک لبیک کے خلاف کارروائی سے متعلق سوال پروزیراعظم نے کہاکہ یہ سیدھا معاملہ ہے،اگر حکومت سپریم کورٹ کا ساتھ نہیں دیتی تو پھر ریاست باقی نہیں رہتی ۔ ٹی ایل پی کے رہنماؤں نے عدالت عظمیٰ کے ججزصاحبان کے قتل کے فتویٰ جاری کئے اوراب بھی ججز کو قتل کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔عمران خان کا کہناتھاکہ آئی ایم ایف کی بعض شرائط سے عام آدمی متاثرہوسکتا ہے ۔آئی ایم ایف سے مذاکرات کی کامیابی سے متعلق سوال پروزیراعظم نے کہاکہ ہمارے پاس آئی ایم ایف کے ساتھ اورآئی ایم ایف کے بغیر دونوں منظرنامے موجود ہیں‘کوشش کریں گے یہ آخری پروگرام ہو‘وزیراعظم نے کہا کہ ہم بھی ممبئی حملے کرنے والوں کو انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔میں نے اپنی حکومت سے اس کیس کی تازہ ترین صورتحال بتانے کو کہا ہے، اس کیس کو اپنے انجام تک پہنچانا ہمارے اپنے مفاد میں ہے کیونکہ یہ دہشت گردی کی کارروائی تھی۔ 

تازہ ترین