• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی ترقی ‘خوشحالی‘ استحکام اور دفاع کیلئے بہترین راستہ وسیع تر قومی اتحاد ہے آج کے دور میں موجود پیچیدہ مسائل صرف اور صرف مشترکہ کوششوں سے ہی حل ہوسکتے ہیں کوئی ایک سیاسی جماعت اتنی صلاحیت اور نمائندگی نہیں رکھتی کہ تن تنہا قوم کو بہتر مستقبل کی راہ پر گامزن کرسکے۔موجودہ حالات میں بڑھتی ہوئی آبادی‘ پانی کی کمی‘توانائی کا بحران‘ زرعی اور صنعتی ترقی میںرکاوٹ درآمدات میں اضافہ برآمدات میں کمی‘ تعلیمی اداروں کی کمی‘ معیار تعلیم کا جدید حالات کے مطابق نہ ہونا‘امن و امان کے مسائل‘ صحت عامہ،سڑکوں کی کمی بے روزگاری اور غربت سمیت بے شمار ایسے مسائل ہیں جو پاکستان کیلئے چیلنج بن چکے ہیں ان چیلنجز کا فوری مقابلہ ضروری ہے۔ اس کیلئے پوری قوم کو مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جمہوری عمل کو مضبوط و مستحکم کئے بغیر ایک بھر پور قومی اتحاد ممکن نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں ہی عوام کی وہ نمائندہ قوتیں ہیں جو قوم کی رہنمائی کرتی ہیں۔ بحرانوں سے نکلنے کے لئے ان کے درمیان اشتراک عمل ضروری ہے۔ اشتراک عمل کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہر قسم کے اختلافات کا خاتمہ ہوگا۔ ہر سیاسی جماعت کا اپنا ایک نقطہ نظر ہے۔ ایک زاویہ نگاہ ہے۔اپنا علیحدہ نظریہ ہے۔ مختلف معاملات پر علیحدہ رائے ہے۔ اسے برقرار رکھتے ہوئے بھی مختلف معاملات پر اتفاق رائے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اسکے برعکس برسر اقتدار سیاسی جماعت ایسے حالات پیدا کرے جسکے نتیجے میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اشتراک عمل کے امکانات مسدود ہوجائیں۔

سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی اور محاذ آرائی کی صورت پیدا ہو تو اس کے نتیجے میں انتشار پیدا ہوگا۔ دنیا بھر میں جمہوری نظام ملکوں کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہیں اسی راہ پر چل کر ہی ہم اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں ہر قسم کے چیلنجز کا مقابلہ بھی جمہوری عمل کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔جمہوریت میں اپوزیشن کے کردار کی ایک اہمیت ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اپوزیشن کو نظر انداز کرکے یا اسے دیوار سے لگا کر کوئی بھی جمہوری نظام مستحکم نہیں ہو سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں برسر اقتدار سیاسی جماعت کے اقدامات سے اپوزیشن اور حکمراں جماعت کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے، سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے یہ بات مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ موجودہ حکمران جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہے۔ وہ تنہا حکومت قائم نہیں کرسکتی تھی۔ اگر دیگر سیاسی جماعتوں کا وسیع اتحاد انتخابات کے نتائج کے فوراً بعد وجود میں آتا تو آج حکمراں جماعت اپوزیشن میں ہوتی۔ ان حالات میں حکمران جماعت کو اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ اس نے یہ آشیانہ شاخ نازک پہ بنایا ہے۔جسے ناپائیدارہی کہا جاسکتا ہے۔سندھ میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے۔پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت قائم ہے۔حال ہی میںپارٹی نے گلگت بلتستان،پنجاب اور بلوچستان میںبہت بھرپور بڑے بڑے اور کامیاب جلسے کئے۔خیبر پختون خوا، پنجاب اور بلوچستان میںپیپلز پارٹی کی گہری جڑیں اور سیاسی اثرات ہیں جسے کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔خود حکمران جماعت نے اپنے ابتدائی ایام میںملک کو بہتری کی جانب گامزن کرنے میں اب تک کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے،نہ ہی اپنے 100 دن کے ایجنڈے کو پورا کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ حکمران جماعت نے کامیابی کے لئے جنوبی پنجاب صوبے کے نعرے کو محض نعرے کے لئے استعمال کیا۔ اس سلسلے میں وہ کسی قسم کے عملی اقدامات سے دور رہی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی وہ واحد سیاسی قوت ہے جو اس سلسلے میں آگے آئی ہے اور وہ اس معاملے میںآگے بڑھ کرہر سطح پر اقدامات کر رہی ہے۔جلد ہی اس کے نتائج بھی قوم کے سامنے ہوں گے۔اگر حکمران جماعت محض الزامات،جبراور سیاسی انتقام کی حکمت عملی اختیار کر کے اپوزیشن کی جماعتوں کو دیوار سے لگائے گی تو اس کے منفی نتائج مرتب ہوں گے۔ آئین پاکستان کے تحت حاصل شدہ اختیارات کے تحت ہی ملک بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتا ہے پارلیمنٹ ایک بالادست ادارہ ہے۔ اسے کمزور کرنا نظر انداز یا اسے دبائو میں رکھنا تباہی کا راستہ ہوگا۔ آئین پاکستان کا تقاضا ہے کہ ایوان کی تشکیل اور وزیر اعظم کے حلف کے بعد 30روزکے اندر اسٹینڈنگ کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔پیپلزپارٹی نے ہمیشہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی سیاست کی ہے۔ اس کی ایک طویل اور تاریخی جدوجہد ہے۔ملک کے موجودہ جمہوری عمل کو جاری رکھنے کیلئے پیپلزپارٹی نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اگر کوئی گروہ اس گمان میں ہے کہ پیپلزپارٹی کو دبائو میں لاکر یا اسے غیر سیاسی طریقے سے کمزور کرکے ملک پر تسلط جمالیا جائے تو یہ ایک بڑی بھول ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں جمہوری عمل کو اس کی روح کے مطابق فطری طریقے سے آگے بڑھنے دیں۔ سیاسی جماعتوں کو آزادانہ طریقے سے کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے اور ملک کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے اشتراک عمل کے ذریعے راہیں تلاش کرنے کا ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ حکمراں جماعت کو اپنی حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے اسے کشیدگی کا خاتمہ کرنے کے اقدامات کرکے ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا،جس سے ملک میں جمہوریت‘ رواداری اور مجموعی قومی اتحاد کو فروغ حاصل ہو۔انتشار کا راستہ خرابی کا باعث ہوگا لہٰذا اصلاح کے ذریعے اتحاد کو فروغ دیئے جانے سے ہی بہتری کی راہ نکلے گی۔

تازہ ترین