• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

معاشی بحران کے باوجود عوامی سہولتوں کے لیے راستہ نکالنا ہوگا

رانا غلام قادر، اسلام آباد

وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے پہلے سو دن مکمل کر لئے ہیں۔ یہ سیاسی سنچری انہوں نے کامیابی سے مکمل کرلی ہے۔ وزیراعظم کے اعتماد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ آئینی طور پر ان کی حکومت پانچ سال کیلئے ہے لیکن وزیراعظم اس قدر پُراعتماد ہیں کہ وہ قبل ازوقت الیکشن کیلئے بھی تیار ہیں اگرچہ سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے اس بیان سے بہت خوش ہیں لیکن اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مڈٹرم الیکشن کرا کے زیادہ اکثریت حاصل کر لی جائے اور چھوٹی جماعتوں کے دبائو اور بیساکھیوں سے نجات حاصل کی جاسکے۔ وزیراعظم 100 دنوں کی کارکردگی پیش کرنے کے مکلف نہیں تھے مگر یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا کہ عوام کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کی جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیراعظم ان تھک ہیں سپورٹس مین سپرٹ کی وجہ سے وہ کام بہت کرتے ہیں۔ ہر ہفتے باقاعدگی سے کابینہ کا اجلاس بلاتے ہیں۔ وزیراعظم آفس میں کئی کئی گھنٹے بیٹھتے ہیں۔ وزارتوں سے بریفنگ اور پریذنٹیشن لیتے ہیں لیکن عوام میں ایک تاثر موجود ہے کہ جس قدر وہ خود پُرجوش پُرعزم اور جذبے سے سرشار ہیں۔ ان کے ویژن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ان کی ٹیم اتنی متحرک، قابل اور تجربہ کار نہیں ہے بعض وزراء کی کارکردگی بلاشبہ اچھی ہے مگر زیادہ تر صرف وقت گزار رہے ہیں یا زیادہ جمع خرچ سے کام چلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس بلایا اور اپنے وزراء کی کارکردگی کا خود محاسبہ کیا۔ یہ ایک اچھی روایت ہے اس سے وزراء کو بھی یہ خوف لاحق ہوگا کہ ہماری وزارت جاسکتی ہے یا قلم دان تبدیل ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو جو چیلنجز وراثت میں ملے ہیں ان میں نمبر ون مسئلہ معاشی چیلنج ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیںکہ نئی حکومت کو ورثہ میں سرکلر ڈیٹ ملا ہے۔ زرمبادلہ کے کم ذخائر ملے ہیں۔آئی ایم ایف کی قسطیں ادا کرنی ہیں لیکن اصولی طور پراس کیلئے ہوم ورک پہلے سے ہونا چاہئے تھا۔ اگر ہوم ورک نہیں بھی کیا گیاتھا تو اب تین ماہ گزرنے کے باوجود معاشی ٹیم مجموعی طور پر ناکام نظر آتی ہے۔وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کے بعد وزیر خزانہ اسد عمر نے اعلان کیا کہ معاشی بحران ٹل گیا ہے مگر عملی طور پر صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ جولائی سے نومبر تک کی پانچ ماہ کی ایف بی آر کی کارکردگی نہایت ناقص ہے اور وصولی میں 99 ارب روپے کا شارٹ فال ہے۔ سٹاک ایکس چینج گزشتہ ہفتے تین ماہ کی کم ترین سطح ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں سٹاک ایکس چینج نے 50 ہزار کا سنگ میل عبورکیا تھا۔ روپے کی قدر میں جس قدر تیزی سے گراوٹ آئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی اور وزیراعظم نے یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ مجھے میڈیا کے ذریعے سے پتہ چلا کہ ڈالر اس قدر مہنگا ہوگیا ہے۔ اگر اتنا اہم فیصلہ وزیراعظم کے علم میں لائے بغیر کیا گیا ہے تو پھر یہ سوال تو اٹھے گا کہ فیصلے کون کر رہا ہے۔ دراصل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پوری کرنے کیلئے کی گئی ہے۔ حکومت اگرچہ ابھی تک واضح طور پر یہ کہنے سے گریز کر رہی ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے قرضہ لیں گے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگلے ماہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوجائے گا۔ وزیراعظم نے دیسی مرغیاں پالنے اورانڈے بیچنے اور کٹے پالنے کی جو تلقین کی ہے وہ اپنی جگہ مگر اس سے معیشت بحال کرنا ممکن نہیں ہے۔ دیسی مرغیاں دیہاتوں میں پہلے بھی لوگ پالتے ہیں حکومت اپنی کارکردگی بتائے کہ 5 ماہ میں برآمدات میں کتنا اضافہ ہوا ہے اب بھی پی ٹی آئی کے وزراء کی زیادہ تر توانائیاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر الزام لگانے میں صرف ہو رہی ہیں۔ یہ کام بھی وزراء جاری رکھیں مگر یہ بھی پیش نظر رہے کہ اب ان کا اپنا میٹرڈائون ہوچکا ہے۔ ایف آئی اے انٹی کرپشن اور نیب کے ادارے موجود ہیں۔ حکومت بلاامتیاز احتساب کرے مگر توجہ اپنی کارکردگی پر رکھے کہ اپوزیشن بہرحال ان سے کارکردگی کے بارے میں تو ضرور سوال کرے گی۔ وزیراعظم کو ابھی ٹیم میں تبدیلیاں کرنی چاہئیں جن وزراء کی کارکردگی مایوس کن ہے انہیں ہٹایا جائے جس کی اچھی ہے ان کو اپ گریڈ کیا جائے۔ مگر شیخ رشید احمد نے جس انداز میں وزیراعظم کی جانب وزرات اطلاعات کی پیش کش کی بات کی اور فواد چوہدری کے بارے میں پکنک منانے کے ریمارکس دیئے اس سے ماحول خراب ہوا۔ شیخ رشید احمدمنجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور وزارت اطلاعات چلانے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں مگر ان سے یہ توقع نہیں تھی کہ اس طرح کی بات بھری محفل میں کریں گے۔ وزیراعظم کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وزراء ان کیلئے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ اعظم سواتی نے بھی بلاوجہ ایک مسئلہ پیدا کیا اور بالآخر انہیں مستعفی ہونا پڑا۔ استعفے کے بعد بھی اعظم سواتی نے یہ عجیب بات کی کہ میں نے وزیراعظم کو استعفے کیلئے رضامند کیا حالانکہ اس سے وزیراعظم کی سبکی ہوئی ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے ریمارکس کے بعد وزیراعظم کا فرض تھا کہ وہ اعظم سواتی سے استعفیٰ لیتے اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد بھی وزیراعظم نے اصرار کیا کہ اعظم سواتی کام جاری رکھیں تو پھر ان پر سوال تو اٹھیں گے۔وزراء کے محکموں میں تبدیلیوں اور بعض کی چھٹی ہونے کا قوی امکان ہے لیکن اس سے بھی اہم معاملہ یہ ہے کہ وزیراعظم عوام کو ریلیف دینے کا وعدہ پورا کریں۔ انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ عوام نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے مایوس ہوکر پی ٹی آئی کو ووٹ دیا ہے۔ عوام کی عمران خان سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ اب تک حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام نظر آئی ہے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ریلوے کے کرایوں میں اضافہ کیا گیا ہے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں سابق دور کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کا بزنس ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے جس سے لوگوں کا اربوں روپیہ پھنس گیا ہے۔ بیروزگار نوجوان ملازمتوں کی امید لئے بیٹھے ہیں۔50 لاکھ مکانوں کے پراجیکٹ پر بھی عملی طور پر کام شروع نہیں ہوا۔ تجاوزات کے خلاف مہم کے نتیجے میں ہزاروں لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں کیونکہ اس مہم کا نشانہ زیادہ تر غریب خوانچے والے اور رکھوکھے والے بنے ہیں۔ اسلام آباد میں بھی تجاوزات کے خلاف مہم اب کمزور پڑ گئی ہے اور وزیراعظم نے ایک کمیٹی بنا دی ہے۔ حضرت علیؓ کا ایک قول ہے کہ لوگ دکھ نہیں دیتے بلکہ ان سے وابستہ توقعات اور امیدیں دکھ دیتی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اگر عوام کی توقعات پر پورے نہیں اتریں گے تو ان کا ووٹر مایوس ہوجائے گا ان کا مقبولیت کا گراف گر جائے گا۔ ان کا ریاست مرتبہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانے کا تصور اور ویژن بہت اچھا ہے مگر جب تک فلاحی ریاست کیلئے عملی اقدامات نہیں اٹھائے جائیں گے جب تک لوگوں کو ریلیف نہیں ملے گا۔ عوام کو انصاف نہیں ملے گا ان کا معیار زندگی تبدیل نہیں ہوگا اس وقت ریاست مدینہ محض نعرہ رہے گا۔ محض خوش کن نعرے لوگوں کی زندگی نہیں بدل سکتے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے اچھی خبر سنائی ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے 11 ارب ڈالر کے اکائونٹس کا سراغ لگایا گیا ہے ۔ یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں اربوں روپے کا سراغ ملا ہے لیکن لوگ یہ سننا چاہتے ہیں کہ حکومت نے کتنی ریکوری کرکے قومی خزانے میں جمع کرائی ہے۔ دوبئی میں جائیدادوں کے سراغ لگانے کی نوید سنائی گئی مگر وصولی زیرو ہے اصل بات یہ ہے کہ کارکردگی دکھائی جائے۔ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پر بھی حکومت کی توجہ نہیں ہے بیوروکریسی بھی حکومت سے تعاون نہیں کر رہی ہے اور خوفزدہ ہے اس لئے فائلوں کو ادھر سے ادھر گھمایا جارہا ہے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین