سابق صدر آصف علی زرداری نے اتوار کو اس وقت ’بم شیل‘ گرایا جب انھوں نے وزیراعظم عمران خان کی موجودہ حکومت کو گرانے کیلئے تصادم کی راہ اختیار کی، اِس وقت عمران خان مضبوط اور اُن سب کے ساتھ ایک پیج پرنظرآتے جو اہم ہیں۔ لہذا جب پی پی پی نے ’مڈٹرم‘ انتخابات کا اشارہ دیاتو اُن کےپاس کون سا ممکنہ کارڈ ہوسکتا ہے، یہ اصطلاح خود عمران خان نے مختلف سیاق وسباق میں استعمال کی تھی۔ پی پی پی لیڈر نےوفاق کے خلاف سندھ میں پہلے ہی ایک ’منی موومنٹ‘ شروع کررکھی ہے اور 27دسمبر کو سابق وزیراعظم بے نظیربھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں ایک اہم اعلان کرنے جارہے ہیں۔ ابھی تک یہ پی پی پی اور زرداری کی سولوفلائٹ ہے اور وہ بھی صوبہ سندھ تک محدود ہے جہاں پی پی پی کی صوبائی حکومت بھی کچھ سیاسی پیشرفت پر پریشان نظر آتی ہے۔ ایک ماہ قبل سپریم کورٹ کی جانب سے ’جعلی اکائونٹ‘ سکینڈل کی تحقیقات کیلئےبنائی گئی کمیٹی کےحکم پر صوبائی حکومت نے 2008سے2018تک کاریکارڈ جمع کرایا ہے، اس میں نہ صرف زرداری بلکہ ان کی بہن فریال تالپور اور بیٹا بلاول بھٹو کو بھی کئی بار طلب کیاگیاہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں کہ کیوں پی پی پی اور زرداری نے سندھ میں اپنے ووٹرزاورسپورٹرزکو متحرک کیاہے، پارٹی تین صوبوں میں مکمل طورپر تنہانظرآرہی ہے لیکن پی پی پی رہنما کہتے ہیں 27دسمبرکےبعد پارٹی دیگرصوبوں میں بھی عوامی جلسے کرےگی۔ اس کے علاوہ زرداری پارلیمنٹ میں بھی پی ٹی آئی حکومت کو پریشان کرنےاور حکومتی اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں سردار اخترمینگل سے ملاقات کی ہے، ان کی پارٹی اتحاد میں شامل ہے لیکن خوش نہیں ہے کیونکہ ان کے چند مطالبات مانے نہیں گئے۔ ذرائع کہتے ہیں پی پی پی لیڈر ایم کیوایم (پاکستان) کوساتھ ملانے میں بھی کامیابی حاصل کرلیں گےاور جلد اس کی لیڈرشپ سے ملاقات بھی کریں گے کیونکہ وہ بھی اپنے چھ نکاتی معاہدےکانفاذ نہ ہونے کے باعث پی ٹی آئی سے ناراض ہیں۔ لیکن کیا زرداری مرکزی اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ہاتھ ملانے کی حدتک جائیں گے، اُن کی اور ان کی بیٹی مریم نواز کی پُراسرار خاموشی نےپی ایم ایل(ن) کی مستقبل کی منصوبہ بندی پر کئی سوالات کھڑے کیےہیں۔ تاحال زرداری اور نواز کے درمیان بداعتمادی موجود ہے اور دونوں کو اپنے اقدامات سے متعلق یقین نہیں ہے۔ نواز شریف دیکھنا چاہتے ہیں کہ زرداری ہاتھ ملانے سے قبل کس حد تک جاتے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں زرداری کالہجہ اتنا جارحانہ ہوچکاہے کہ کئی پی پی پی رہنما بھی ان کے ممکنہ اقدامات کے بارے میں حیران تھے۔ کچھ کا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ پرحملوں کےدوران اُن کانام لیےبغیرانھوں نےبراہِ را ست بڑاخطرہ مول لیاہے۔ دوسری جانب عمران خان کی زیرِ قیادت حکومت نے ’انتظارکرنے اور دیکھنے‘ کی پالیسی اپنائی ہے اور نیب اور ایف آئی اے کو اپنی تحقیقات تیز کرنے کی اجازت دی ہے اور باقی عدلیہ پر چھوڑاہے۔ نئےسال2019کے پہلےچند ماہ کےد وران کئی اہم پیشرفت متوقع ہیں چونکہ ان کے کیسز بھی میچور ہوجائیں گے۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ زرداری کےپاس کوئی زیادہ راستے ہوں گے کیونکہ اور پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) کے مرکزی رہنماوں کے خلاف مقدمات اورانکوائریاں حتمی مراحل میں ہیں، ان میں زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور اور کئی دیگر شامل ہیں جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف نیب کے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں جو رواں ماہ کے اختتام تک متوقع ہے۔ ذرائع کہتےہیں کہ نواز شریف کے مقدمے میں احتساب عدالت کا فیصلہ ایک ہفتے یا دس دن میں آجائے گا، ’جعلی اکائونٹس‘ کی تحقیقات میں زرداری اور ان کی بہن تالپور کی قسمت کا فیصلہ بھی ایک ہفتے میں ہوجائے گا کیونکہ زرداری اور جے آئی ٹی رواں ماہ کے اختتام تک اپنی رپورٹ جمع کرادےگی۔ اس کے علاوہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف ان کے بیتے حمزہ شہباز اور نامور رہنما خواجہ سعد رفیق اور دیگر کو بھی نیب کی تحقیقات کا سامنا ہے اسی طرح ڈاکٹرعاصم حسین، شرجیل میمن اور دیگر کو بھی تھا۔ میراماننا ہے کہ زرداری پہلے ہی پی ٹی آئی اور عمران کو پریشا ن کرنے کا موقع گنوابیٹھے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں میں بلو چستا ن میں سیاسی بحران سے شروع ہوکر سینٹ انتخابات، چیئرمین سینٹ، وزیراعظم اور صدارتی انتخابات تک پی پی پی کے اقدامات نے عمران خان کووفاق اور پنجاب میں اتحاد بنانےمیں مدد کی ہے۔ ان کے چند اقدامات سے ان کی اپنی پارٹی میں بے چینی پیدا ہوئی مثال کے طورپر ان کے اپنےپارٹی رہنما سینیٹررضا ربانی کو بلا مقابلہ چیئرمین سینٹ بنانے کی اجازت نہ دینا۔