• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ حکومت کے سو دنوں کے بارے میں لوگوں کی مختلف آرا ہیں، کچھ لوگ اِن دنوں کو ناکامی اور ناتجربہ کاری کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کم از کم عمران خان ایماندار شخص ہیں، وہ اپنی ناتجربہ کار ٹیم ہونےکے باوجود کوئی نہ کوئی کرشمہ دکھا کر قوم کو مشکل سے نکال دیں گے اور اکثر کا یہ خیال ہے کہ اُن کو چھ ماہ کا وقت دیا جانا خطرناک کام ہوگا، چھ ماہ کا وقت ایسے حالات میں جب کشتی بھنور میں پھنسی ہوئی ہو تو بہت زیادہ وقت ہے، ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔اس وقت جب یہ کہا جارہا ہے کہ عمران خان کو چھ ماہ کا عرصہ دیدیا جائے تو اُن پر کڑی نظر رکھنے کی سخت ضرورت ہے ، انہوں نے جو غلطیاں کرلی ہیں اُن کی نشاندہی کرنا ضروری ہے تاکہ وہ غلطیوں کو بھی درست نہ مان لیں، جو ٹیم انہوں نے منتخب کی ہے وہ ناتجربہ کار ہے اُس کو انہوں نے پاس بھی کردیا ہے جو دوسری بڑی غلطی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس تجربہ کرنے کا وقت دستیاب ہے جواب تو یہی ہے کہ وقت بہت تیزی سے بدل رہا ہے، عالمی حالات و واقعات میں برق رفتاری سے تبدیلی آرہی ہے، وہ اِس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ حالات کے مطابق پالیسیوں کو تبدیل اور ویسے ہی موڑا جائے جیسا کہ ضرورت ہے، اب صورتِ حال یہ ہے کہ ملک میں روپے کی قدر گھٹ رہی ہے، بیروزگاری بڑھ رہی ہے، مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے، لوگوں کی زندگی اجیرن ہوتی جارہی ہے تاہم تین اچھی خبریں بھی ہیں ایک تو مذہبی سیاحت کو جو فروغ دیا جارہا ہے وہ ایک انقلابی قدم ہے، جس کے کئی حاشیے ہیں، خارجہ امور کی طرف کامیابی کے بڑھتے قدم، مذہبی ہمآہنگی کے ذریعے زرمبادلہ کا حصول، مشرقی سرحدوں پر دبائو کی کمی ۔

ہم نے مذہبی سیاحت کا مشاہدہ ایران میں کیا ، جب میں 2013ء میں ایران گیا تو اس وقت امام علی رضاؓکے ٹرسٹ سے 42صنعتیں چلائی جاتی تھیں اور وہ ایران کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتی تھیں۔ پاکستان نےبھی کرتارپور راہداری کا افتتاح کرکے سکھوں کی عبادت گاہ کو اُن کے لئے کھول دیا ہے، جہاں پر دُنیا بھر کے سکھ یاتری عبادت کے لئے آسکیں گے اور پاکستان کے لئے زرمبادلہ کا حصول ممکن ہو گا، جو ایک سال کے اندر اندر شروع ہوجائے گا پھر پاکستان کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں، وہ خیرسگالی کا پیغام دُنیا بھر کے سکھوں تک پہنچائیں گے، سکھ برادری دُنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے، اگر لندن جانا ہو تو سائوتھ ہال کے علاقے میں سکھوں کے پرشکوہ گوردوارے موجود ہیں، پاکستان کی موجودہ حکومت نے اس سیاحت کو صرف سکھ برادری تک محدود نہیں رکھا بلکہ ہندوئوں کے لئے بھی کٹاس راج کے مندر کھولنے کی پیشکش کی ہے۔ یاد رہے کہ جب ایل کے ایڈوانی پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو انہوں نے اس مندر کی یاترا کی تھی اور اس کے بعد اُن میں قائداعظم کی محبت جاگ گئی تھی اور انہوں نے بھارت جا کر وہ کچھ کہا جس سےاُن کو بھارت میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا، تاہم اس مندر کی اہمیت ہندوئوں کے نزدیک بہت زیادہ ہے، موجودہ حکومت نے اس کو بھی ہندوئوں کے لئے کھولنےکا عندیہ دیدیا ہے، اس طرح بھارت کے بڑھتے ہوئے ہندتوا کے غبارے کو مزید پھولنے سے روکا ہے، تیسرے پاکستان نے مزید فراخدلی کا مظاہرہ کرکے شرادھاپیت کی عبادت گاہ، جو آزاد کشمیر میں واقع ہے، بھی ہندوئوں کی عبادت کیلئے کھولنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، نہ صرف یہ بلکہ بدھ مت کے ماننے والے جو، چین، جاپان اور دیگر ممالک میں موجودہیں اسلام آباد کے قریب بدھا کے نئے مجسمے کی زیارت کرسکتے ہیں، اس سیاحت میں دُنیا بھر کیلئے اپیل ہے اور پاکستان کی فراخدلی کی عمدہ مثال ہے اور ایک اچھی کوشش قرار دی جاسکتی ہے، اگر اس بنیاد پر لوگ موجودہ حکومت کو چھ ماہ کا وقت دینے کی بات کررہے ہیں تو قدرے درست قرار دی جاسکتی ہے مگر حجم کے لحاظ سے وہ پاکستان کی معیشت کو مکمل سہارا نہیں دے سکتی، دوسری اہم بات جو حکومت کررہی ہے یہ کہ پاکستان میں سیاحت کو فروغ دے رہی ہے۔ پاکستان دُنیا کا وہ ملک ہےجہاں پانچ موسم اور ایسے مقامات ہیں جہاں سیاحوں کی دلچسپی بڑھتی چلی جائے گی، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، صحرا اور پاکستان کے ساحلی علاقے اپنے اندر بـڑی جاذبیت رکھتے ہیں، حکومت پاکستان نے اس کی تشہیر کئی انداز سے کی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ پاکستان سیاحت کیلئے آنے میں دلچسپی لیں گے، اس میں بل کرٹس جیسے اینکر نے پاکستان کی خوبصورتی پر ایک دستاویزی فلم تیار کی ہے، تیسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان آئی ٹی کے میدان میں ترقی کررہا ہے اور اس میں ترقی کے امکانات حد سے زیادہ ہیں، ایسے اشتہارات اور ایسے دستاویزی فلمیں تیار ہوگئی ہیںجس سے سرمایہ کار پاکستان سے رجوع کرسکتے ہیںمگر ضروری ہے کہ امن وامان کی موجودہ فضا برقرار رکھی جائے، اس پربہت خاموشی سے کام ہورہا ہے اور صرف وہی لوگ دیکھ پا رہے ہیں جو دُنیا کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔کوششیں جاری ہیںدیکھتے ہیں کہ وہ کس حد تک بارآور ثابت ہوتی ہیں کہ دوسری طرف مخالف ہوائیں تندوتیز ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین