• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر آصف علی زرداری کی ذہانت اور یوسف رضا گیلانی کی جوڑ توڑ صلاحیت کا قصیدہ پڑھوں یا ایثار پیشہ جیالوں کو پُرسہ دوں کہ لاہور کا گورنر ہاؤس ایک جیالا گورنر پشتینی مسلم لیگی کے لئے خالی کر رہا ہے۔ آب آمد تیمم رفت۔
گورنر پنجاب کے طور پر مخدوم احمد محمود کی نامزدگی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی سیاسی کامیابی تو ہے صدر آصف علی زرداری کی کامیاب سیاسی چال ہرگز نہیں جیسا کہ بعض حلقے تاثر دے رہے ہیں۔ ضلع رحیم یار خان میں بلاشبہ پیپلز پارٹی کو فائدہ ہے اگر مخدوم شہاب الدین اور میانوالی قریشیاں کے مخاد یم اس نامزدگی پر اپ سیٹ نہیں تو احمد محمود جنوبی پنجاب میں سرائیکی صوبہ کے مسئلہ پر بھی پیپلز پارٹی کے لئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں مگر بعض دیگر وجوہات کی بنا پر یہ نامزدگی پیپلز پارٹی کے لئے وسطی پنجاب میں مزید مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔
مخدوم یوسف رضا گیلانی تو فائدے میں رہے انہوں نے اپنے مخالف سردار لطیف کھوسہ سے گورنر ہاؤس خالی کرا لیا جو پنجاب میں نہ تو گیلانی کا کوئی کام ہونے دیتے ، نہ جنوبی پنجاب کے بارے میں ان کی رائے اور تجزیئے سے اتفاق کرتے، نہ لاہور آمد پر پروٹوکول دیتے الٹا مرکزی قیادت کے کان بھرتے کہ سابق وزیر اعظم اور ان کے ساتھی پارٹی کا اثاثہ نہیں بوجھ ہیں۔
اگر میانوالی قریشیاں کے مخادیم بالخصوص مخدوم شہاب الدین اس تقرر سے ناخوش نہیں اور احمد محمود مخدوم عمادالدین سے بے وفائی کر کے مخدوم شہاب الدین کو گلے لگاتے ہیں تو پیپلز پارٹی کو ضلع رحیم یار خان میں چار پانچ نشستوں پر کامیابی مل سکتی ہے بشرطیکہ مسلم لیگ (ن) سرائیکی صوبہ کے مسئلہ پر بدستور دباؤ کا شکار رہے اور تحریک انصاف بھی نوجوانوں کو متحرک نہ کر سکے تاہم ضلع سے باہر احمد محمود پیپلز پارٹی کے لئے کامیابیوں کے انبار لگا سکیں؟ مجھے ہرگز اتفاق نہیں۔
پیر صاحب پگارا سیّدصبغة اللہ راشدی محض احمد محمود کے گورنر پنجاب بننے پر سندھ میں اپنی بڑھتی ہوئی سیاسی مقبولیت کو داؤ پر لگا کر دوبارہ حکمران اتحاد میں شامل ہو جائیں یہ بھی قرین قیاس بات نہیں۔ یہ امکان موجود ہے کہ پیر صاحب اسے فنکشنل لیگ پر گیلانی اور زرداری کے شب خون سے تعبیر کریں اور اپنے دونوں کزنز یوسف رضا و احمدمحمود سے مزید فاصلہ پیدا کر لیں کیونکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
مخدوم احمد محمود کی نامزدگی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین کسی درپردہ مفاہمت کا نتیجہ یوں نظر نہیں آتی کہ مخدوم احمد عالم انور کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اور مخدوم خسرو بختیار کے رابطوں کو احمد محمود اس طے شدہ مفاہمت سے انحراف قرار دے کر ہی ایوان صدر کی طرف راغب ہوئے جس کے تحت ضلع کی تین نشستیں این اے 192، 194،195مخدوم گروپ اور باقی تین نشستیں این اے 193،196،197 پر مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدواروں کی دونوں فریق حمایت کرتے ۔ یہ عملاً شریف برادران کو Tit For Tat کا اشارہ ہے۔ جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے۔

جہانگیر ترین سے احمد محمود کے راستے پہلے ہی جدا ہو چکے ہیں، یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شہاب الدین کی چپقلش کسی سے مخفی نہیں، عام انتخابات میں گورنر کا عہدہ محض بروزن بیت ہی ہو گا اور اگر سرائیکی صوبہ کے مسئلہ پر حکمران اتحاد نے کوئی پیش رفت نہ کی تو سرائیکی عوام کا پیپلز پارٹی اور مخادیم ملتان، جمال دین والی اور میانوالی قریشیاں کے خلاف ردعمل شدید ہو گا اس لئے صدر آصف علی زرداری کو کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔
اس کے برعکس احمد محمود کی نامزدگی پر چوہدری برادران کے تحفظات دور نہیں کئے جاتے، مخدوم شہاب الدین کی گزشتہ شب چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی سے ملاقات اسی تناظر میں ہے اور یہ دونوں مخالفت کا فیصلہ کر لیتے ہیں ، مسلم لیگ (ن) بھی اسے جنوبی پنجاب میں اپنی پوزیشن خراب کرنے کی سازش سمجھتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے نئے نویلے صوبائی صدر میاں منظور وٹو سے بھی نئے گورنر کا قارورہ نہیں ملتا اور چوہدری برادران کی طرح میاں منظور وٹو بھی اسے ضمنی انتخابات میں ناکامی کے ردعمل سے تعبیر کرتے ہیں تو اس امر کا قوی امکان ہے کہ وسطی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی مشکلات مزید بڑھ جائیں ۔ گھیرا تنگ ہوتے دیکھ کر شریف برادران چوہدری برادران سے ہاتھ ملا لیں ۔ یوسف رضا گیلانی پیر صاحب پگارا کو رام کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں اور پیر صاحب پگارا زرداری مخالف اتحاد کا حصہ بن جائیں۔ پیر صاحب سندھ میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے جو موقف اختیار کر چکے ہیں اس کے پیش نظر حکمران اتحاد میں فنکشنل لیگ کی واپسی ایم کیو ایم کے لئے بھی شاید قابل قبول نہ ہو اور یوسف رضا گیلانی کی قربت کے عوض صدر آصف علی زرداری سندھ اور پنجاب میں اپنے دو قابل اعتماد حلیفوں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) سے ہاتھ دھو بیٹھیں کہ سیاست ممکنات کا کھیل ہے اور ریت ہاتھ سے پھسلتے دیر نہیں لگتی۔
یہ مخدوم احمد محمود کی ذاتی کامیابی اور بلندی درجات ضرور ہے ان کے والد مخدوم زادہ حسن محمود 1970ء کے انتخابات میں بہاولپور صوبہ بحالی تحریک کی مخالفت کے باوجود پنجاب کے وزیر اعلیٰ نہ بن سکے۔ 1985ء میں بادشاہ گر پیر صاحب پگارا چاہتے تو انہیں اس منصب پر فائز کرا سکتے تھے مگر پیر صاحب کے علاوہ دیرینہ مسلم لیگ ساتھی محمد خان جونیجو نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ میاں نواز شریف انہیں ٹھینگا دکھا کر وزیر اعلیٰ بن گئے ۔ جنرل ضیاء اور پیر صاحب نے انہیں گورنری کے قابل نہ سمجھا۔ احمد محمود تعلیم، سیاسی تجربے اور ذہانت و بصیرت میں اپنے والد کے پاسنگ نہیں مگر ملک کے سب سے بڑے صوبے کے لاٹ صاحب نامزد ہو گئے۔ ضلعی سطح کے ایک سیاستدان کو اور کیا چاہئے۔ جوڑ توڑ کی سیاست میں وہ اپنے پھوپھی زاد بھائی مخدوم یوسف رضا گیلانی کی کس حد تک مدد کر پاتے ہیں اگلے چند ہفتوں میں لگ پتہ جائے گا۔ یہ شریف برادران کے لئے بھی چیلنج ہے تاہم پیپلز پارٹی کے جیالے حیران ہیں کہ صدر آصف علی زرداری لاہور کے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایک جیالا بٹھانے کا وعدہ کر گئے تھے، گورنر ہاؤس سے بھی جیالا فارغ اور تین پشتوں سے مسلم لیگی برا جمان۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔
تازہ ترین