• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گاڑیوں کا دھواں، ماحول کی آلودگی اور درجہ حرات میں اضافے کا ایک اور بڑا سبب ہے۔ تیز رفتار ترقی اور معاشی خوشحالی نے سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشاضافہ کردیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے سڑکوں کا پائیدار انفرا اسٹرکچر تشکیل دیا جانا ضروری ہے۔

یہ بات شاید ابوظہبی کی حکومت نے سن لی، تبھی انہوں نے صحراؤں میں ایک ایسا شہر بناڈالا جو نہ صرف ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بھی نہیں بنتا۔ جی ہاں! ابو ظہبی کی حکومت صحرا میں’مصدر سٹی‘ بنا چکی ہے اور اس شہر کو ماحولیات کے لئے پہلا پائیدار شہر اورمستقبل کا ایک مثالی شہر قرار دیا جارہاہے۔

1998ءمیں ابو ظہبی سے صرف17کلو میٹر دور صحرا میں اس شہر کی تعمیر شروع کی گئی تھی جبکہ2010ء کی تیسری سہ ماہی کے دوران اس کا پہلا بلاک رہائشیوں کے لئے کھول دیا گیا تھا ۔اس ایکو سٹی میں کل پچاس ہزارکے قریب افراد کے سکونت اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ جبکہ ایک یونیورسٹی اور ایک ہزار تجارتی ادارے یہاں اپنے دفاتر قائم کرسکتےہیں، اسی لئے یہ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی ایسی کمپنیوں اورمحققین کی آماجگاہ بن رہا ہے ، جوتحفظ ماحولیات اور توانائی کے متبادل اور صاف طریقوں کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ گویا یہ شہر معروف اداروں کا ایک بین الاقوامی مرکز بنتا جارہاہے۔

مصدر سٹی کی تعمیر میں دس اصولوں کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے۔ جن میں سب سے پہلا یہ ہے کہ یہ پائیدار شہر زیرو کاربن کا حامل ہو۔ اس کے ساتھ مصدر سٹی کے بنیادی اصولوں میں یہ بھی شامل ہےکہ یہاں منصفانہ تجارت ہو، صحت اور بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے اورمقامی روایات اورثقافت کا احترام کیا جائے۔

ایک چار دیواری کے اندر تعمیر ہونے والے اس شہر کو قدیم عرب شہر کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں تنگ گلیاں عمارتوں کے سائے کی وجہ سے بھی ٹھنڈی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ پورے شہر میں ٹھنڈک کے احساس کے لیئے ‘‘لونر ٹیکنالوجی‘‘ استعمال کی جا رہی ہے۔مصدر سٹی میں دیگر شہروں کے مقابلے میں پانی کی موجودگی 80فیصد کم ہے، یہاں فاضل مادوں کی سو فیصدی ری سائیکلنگ کی جاتی ہے اور ضرررساں کاربن گیسوں کا اخراج زیرو فیصد ہو تا ہے ۔

یہاں صرف الیکٹرک گاڑیاں اور میٹرو اسٹیشن ہیں اور ان کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ ہر شخص صرف دو سو میٹر چل کر اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکے۔پیٹرول اور ڈیزل کی روایتی گاڑیاں صرف شہر کے صدر دروازے کے باہر تک محدود رہیں گی جس کے بعد یا تو پیدل سفر کیا جاسکے گا یا پھر ڈرائیور کے بغیر چلنے والی مقناطیسی گاڑیاں استعمال کی جاسکیں گی۔ بازاروں اور گلیوں میں پیدل سفر کیا جائے گا لیکن تھکاوٹ کی صورت میں نچلی منزل سے ڈرائیور کے بغیر چلنے والی مقناطیسی سینسر کی حامل گاڑیاں استعمال کی جاسکتی ہیں، جو شمسی توانائی سے چلیں گی۔اس صحرائی علاقے کو سر سبز بنانے کے لئے گرین پارک، پانی کے فوارے اور عمارتیں کچھ اس طرز پر تعمیر کی جا رہی ہیں کہ ہر طرف ہریالی نظر آئے۔ یہاں توانائی کے لئے صرف پن بجلی اور شمسی توانائی استعمال کی جاتی ہے۔ کاربن فری ‘‘مصدر ‘‘ شہر مکمل طور پر قابل تجدید توانائی سے اپنی ضروریات پوری کر کے دنیا کا نہ صرف پہلا کاربن فری شہر بنا ہے بلکہ یہاں عام شہروں کی طرح ’ردی‘ کا نام و نشان نہیں ہوتا کیونکہ ہر قسم کی ردی کو ری سائیکل کر کے دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا ہے اور اس طرح یہ دنیا کے لیئے ایک مثالی شہر ثابت ہو رہاہے۔

ابوظہبی کو انٹرنیشنل رینیوایبل انرجی ایجنسی (IRENA) کے سیکریٹریٹ کے طور پر رہائش کے لئے منتخب کیا گيا ہے۔اور یہ پہلا موقع ہے جب کسی عالمی تنظیم نے مشرق وسطیٰ کے کسی شہر کو اپنے صدر دفتر کے لئے منتخب کیا ہے۔اس کاربن فری شہر کا ڈیزائن برطانوی آرکیٹیک فوسٹر اینڈ پارٹنرز نے تیار کیا ہے اور اس پر پندرہ ارب سے تیس ارب ڈالر کے درمیان لاگت آئی ہے۔

اس شہر کے بارے میںتازہ ترین معلومات حاصل کرنے کے لیے آپ انٹرنیٹ کا سہارا بھی لے سکتے ہیں۔

تازہ ترین