• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موت بہرحال رنج، دکھ ، غم اور افسوس کا تاثر چھوڑ جاتی ہے۔حادثاتی موت کی نشتریت اور بھی زیادہ ہوتی ہے اور کسی انسان کا قتل عمد اتنا گہرا زخم چھوڑ جاتا ہے کہ لہو رستا ہی رہتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سینے میں دل دھڑک رہا ہو اور اس دل میں انسانیت کی رمق زندہ ہو۔ جب سینے سنگلاخ زمینوں میں بدل جائیں اور دل پتھر ہوجائیں تو انسانیت بھی رخصت ہو جاتی ہے۔ بستیاں جنگلوں میں بدل جاتی ہیں اور ازل سے یہی سنا ہے کہ جنگلوں میں درندگی راج کرتی ہے۔
بشیر احمد بلور کے قتل ناحق نے پھر پیغام دیا ہے کہ جنگلوں کی سفاک وحشتیں ہماری بستیوں میں در آئی ہیں اور درندگی خونی جبڑے کھولے، دندناتی پھر رہی ہے۔ بجا کہ موت اٹل ہے۔ تسلیم کو ہر ذی روح کہ ایک نہ ایک دن دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ علامہ نے کہا تھا #
کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت
گلشن ہستی میں مانندِ نسیم ارزاں ہے موت
زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایّام ہیں!
کلبہِ افلاس میں دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں ، شہر میں، گلشن میں، ویرانے میں موت
بلاشبہ موت سے کسی کو مفر نہیں لیکن کیا موت کو اٹل حقیقت مان لینے کا مطلب یہ ہے کہ آگ اور بارود کے اس کھیل سے صرف نظر کرلیا جائے؟ انسانی جانوں سے کھیلنے والی وحشتوں کو کھل کھیلنے دیا جائے؟ ہر ایسی واردات پر کچھ مرثیے پڑھے جائیں، مرنے والے کی شان میں کچھ قصیدے کہے جائیں، قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے کچھ کھوکھلے بیان جاری کئے جائیں اور چند گھنٹوں بعد گاڑی معمولات کی لگی بندھی راہوں پہ چلنے لگتی ہے۔
بشیر احمد بلور سے میری گنتی کی کچھ ملاقاتیں ہیں۔ ایسی ملاقاتیں جن میں بے تکلفی کا غیررسمی پن تھا۔ میں اے این پی کے نظریات اور فلسفے کا بڑا کھردرا ناقد رہا ہوں اور اب بھی ہوں۔ اسفند یار ولی کی قیادت میں، اصولوں کی پاسداری کو اپنا زادِ راہ بنانے والی جماعت جس طرح مفادات کی شاداب چراگاہوں اور اونچے ایوانوں کے دسترخوانوں کی نذر ہوگئی، وہ ہماری سیاست کا ایک المیہ ہے۔ مجھے اس دن شدید دھچکا لگا تھا جس دن باچا خان کا پوتا اور ولی خان کا بیٹا، جناب آصف زرداری کے ہمراہ نواز شریف کے پاس گیا تھا اور کہا تھا کہ ”میاں صاحب ہمیں جنرل مشرف کے تمام اقدامات کو توثیق کی چھتری فراہم کردینی چاہئے کہ داخلی اور خارجی تعلق داروں (stoke holders) کی یہی خواہش ہے“۔ گزشتہ پونے پانچ برس کے دوران بھی اے این پی نے خیبرپختونخوا پر حکمرانی کا کوئی قابل تحسین نقش نہیں چھوڑا۔ مرکز میں بھی وہ پیپلز پارٹی کے مدار کا دم دار ستارہ بن کے رہ گئی لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے وابستگان ہمیشہ کڑی آزمائش سے دوچار رہے۔ نام نہاد وار آن ٹیرر کے حوالے سے بھی اے این پی، آنجہانی ڈکٹیٹر کا نقطہ نظر اپنائے ہوئے ہے لیکن اس سے انکار نہیں کہ وہ مسلسل عرصہ امتحان میں ہے۔ صحیح یا غلط، اس نے ایک موقف اپنا رکھا ہے اور وہ پوری استقامت کے ساتھ ، گولیوں کی بوچھاڑ کے عین سامنے ڈٹی ہوئی ہے۔ وہ اپنا لہو دے رہی ہے لیکن سر نہیں جھکا رہی۔ سر بلند لوگ جیسے بھی ہوں، ایک بانکپن رکھتے ہیں۔
اور بشیر بلور ایسا ہی بانکپن رکھنے والا جری مرد تھا، لفظ چبائے بغیر کھری اور دوٹوک بات کرنے والا، اس پر تین حملے ہوچکے تھے لیکن وہ کسی تہہ خانے میں بیٹھا نہ کوئی سرنگ کھودی۔ اپنے لوگوں میں رہا۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی زندگی کا چراغ ہتھیلی پہ لئے پھرتا رہا۔ اسے یقین تھا کہ جو رات قبر میں آنی ہے، وہ بہرحال آنی ہے۔ وہ رات آخر آگئی ۔ قصہ خوانی بازار میں اس کا لہو ایک قصہ چھوڑ گیا۔
افغانستان کے پہلو میں واقع ہونے کے باعث خیبرپختونخوا براہ راست آتش فشاں کی زد میں ہے۔ نائن الیون کا آتشکدہ دیکھنے کے بعد سے اب تک پولیس کے 898/اہلکار اور افسر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ زخمیوں کی تعداد1892 بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے بیشتر زندگی بھر کے لئے معذور ہوچکے ہیں۔ صرف اس رخصت ہونے والے سال میں67 پولیس اہلکار، ایف سی کے سات اہلکار، فوج کا ایک سپاہی اور218 شہری دہشت گردی کی نذر ہوگئے۔ زخمیوں کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اے این پی بیسیوں کارکنوں کی قربانی دے چکی ہے۔ یہ صرف ایک صوبے کی بات ہورہی ہے۔ باقی تین صوبوں میں بھی زندگی اسی طرح ارزاں ہے۔ شہر قائد تو ایک مدت سے قتل گاہ بن چکا ہے۔ بلوچستان میں کچھ اور عنوانات سے اور پنجاب میں بہ انداز دگر لہو بہتا رہتا ہے۔
جنونی ہر کہیں ہوتے ہیں۔ خلل کسی بھی دماغ میں آسکتا ہے۔ ابھی دو ہفتے قبل امریکہ میں ایک شخص نے درجنوں معصوم بچوں کو بھون ڈالا۔ لیکن ہمارے ہاں کی دہشت گردی، جنون کی حدوں سے ذرا آگے نکل چکی ہے۔ اس نے حکومت و ریاست کے متوازی اپنی حکومت اور اپنی ریاست قائم کرلی ہے۔ وہ اتنی توانا اور ایسی بے مہار کیونکر ہوگئی؟ لاتعداد محرکات ہیں لیکن سب سے بڑا محرک یہ ہے کہ گیارہ سال گزر جانے کے بعد بھی ہم نے نہ امریکی کروسیڈ کے بارے میں کوئی واضح پالیسی اختیار کی، نہ دہشت گردی کے ان دھاروں پہ قابو پانے میں کوئی سرگرمی دکھائی جو ہر گزرتے دن کے ساتھ منہ زور ہوتے اور بپھرتے جارہے ہیں۔ اب انسانی جان ہمارے ہاں سب سے جنسِ بے مایہ ہوکے رہ گئی ہے۔ جب کوئی نام اور مقام رکھنے والا نشانہ بنتا ہے تو تھوڑی ہلچل ہوتی ہے ، لیکن ان افتادگان خاک کا تذکرہ تک نہیں ہوتا جو کوئی نمایاں پہچان نہیں رکھتے۔ چالیس ہزار کے لگ بھگ انسان اس بھٹی کا ایندھن ہوچکے ہیں۔ ذرا حکومت سے پوچھئے۔ ممکن ہے وہ ایک ہزار کے نام اور پتے بتاسکے۔ باقی سب خس و خاشاک تھے کہ رزق خاک ہوگئے۔ گیارہ برس پہ محیط اس قیامت کا نصف سے زائد عرصہ ایک ڈکٹیٹر کے سایہ آمریت تلے گزرا ۔ نصف سے کچھ کم خیمہ جمہوریت تلے بسر ہوا۔ دونوں ہر آن پھولتی پھلتی دہشت گردی کا مداوا نہ کرسکے۔ حکومت بے بس ، پولیس، ایف سی، رینجرز، ایجنسیاں سب بے بس ، حتیٰ کہ فوج خود چاند ماری کا نشانہ۔ کہیں کوئی درد کی چنگاری نہیں سلگ رہی،کہیں کسی دل سے دھواں نہیں اٹھ رہا۔ ہمیں سفاک درندگی کا لقمہ بنانے والا لندن اور دبئی کی عشرت گاہوں میں مست ہے اور پاکستان سوکھے پتوں کے ڈھیر کی طرح جل رہا ہے۔
اللہ بشیر بلور کی کوتاہیوں کو معاف کرے، اس کی روح کو آسودگی بخشے۔ اس نے اس راہ میں جان دی جسے وہ درست خیال کرتا تھا۔ اللہ ان معصوموں کی ارواح پاک کو بھی ابدی سکون دے جو ڈرونز کی شکل میں امریکی قہر کا لقمہ ہوگئے اور جن کے نام، ان کے ساتھ ہی گہری قبروں میں دفن ہوگئے۔ بشیر بلور نے کوئی سال بھر قبل اسلام آباد کلب میں چائے پیتے ہوئے کہا تھا ”موت کے ڈر سے سچ نہ کہنا سب سے بڑی بزدلی ہے“۔ وہ بہادر تھا اور اپنے ضمیر کے مطابق اپنا سچ کہتا ہوا رخصت ہوگیا۔ ہر شخص اپنا سچ رکھتا ہے لیکن کتنے ہیں جو اس سچ کیلئے نقدِ جاں پیش کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔
تازہ ترین