• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس سے اور کیا بڑا سقوط ہو سکتا ہے کہ جب آپ کے بچوں کو پولیو کی بیماری کے انسداد میں قطرے پلانے والی خواتین ہیلتھ ورکروں کو گولی سے اڑا دیا جائے۔
یہ جو کوئی کوئی شاعر ہوتے ہیں ان کو آنے والے وقتوں کا ادراک ہوجاتا ہے جیسے میرے دوست اور صحافی جاوید احمد جیدی نے کئی سال قبل شعر کہا تھا ”انہیں کہنا دسمبر آ رہا ہے“ جیدی شعر لکھتے نہیں شعر کہتے ہیں۔ شام غریباں کی طرح چراغ شام بجھا کر سوز سے شعر پڑھتے ہیں۔ وہ دسمبر جو دنیا میں موم بتیاں روشن کرنے کا مہینہ ہے، جنگل بیل گانے کا مہینہ ہے۔ گرجا گھروں اور گھروں میں رنگا رنگ روشنیاں ، مقدس مجسمے اور سبز و سرخ پھول سجانے کا مہینہ ہے۔ برفباری کا مہینہ۔ سفید کرسمس کا مہینہ۔ لیکن کیا یہ جیدی جیسے شاعر کو کئی سال پہلے لاشعور میں پتہ تھا کہ دسمبر پاکستان میں ایک اور بڑے سانحے کا مہینہ ہوگا۔ اسی ماہ ایک دو مرتبہ منتخب اور پھر انتہائی ممکنہ طور پر منتخب ہوسکنے والی خاتون وزیر اعظم اور ایک بہت ہی اچھی لیڈر کو بڑے اہتمام اور بڑی کوریو گرافی سے قتل کئے جانے کا مہینہ ہوگا۔ ”قید خانے میں طلاطم ہے کہ سندھ آتی ہے“۔ بے نظیر بھٹو کا قتل بھی کسی سقوط ڈھاکہ سے کم نہیں تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس سقوط کو مستقبل میں کہیں ٹال کر رکھ دیا گیا ہے۔ وہ والو جو وفاق اور صوبوں کے درمیان تھا دل کے والو کی طرح ٹوٹ تو گیا لیکن اسے ”پاکستان کھپے“ کے نعرے کی اسٹنٹ لگادی گئی۔ بے نظیر کے سوئم والی شام گڑھی خدا بخش پر اترتی ہوئی شام کے تاریک سایوں میں سندھی ٹوپی اور اجرک پہنے چار سادہ لباس فوجیوں نے بے نظیر کی مرقد پر پھول چڑھا کر اس المناک کوریو گرافی اور تجسس میں اور اضافہ کردیا۔
مجھے حیرت ہے کہ اب یہ نعرہ شاید کوئی نہیں لگاتا ”چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر“۔ اب تو بے نظیر کے قاتلوں اور اس کے ماتم داران سب کو ایک صف میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ”تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے“۔ بے نظیر تو کیا بھٹو کی پھانسی کی سزا لکھے جانے والے قلم بردار اور بے نظیر بھٹو کی وصیت اور علم بردار سب بھائی بھائی ہیں۔ کرسی ہے ہی باری وٹے کا کھیل۔ نہ جانے کتنی بار بے نظیر کے قاتل پکڑے گئے ہیں پھر چھوڑے گئے ہیں۔ سرخ غالیچوں پر گارڈ آف آنر میں ان کی رخصتی کی گئی ہے۔ پی پی پی حکومت کی اپنی ہی کمیشن کی ہوئی اقوام متحدہ کی طرف سے کھروں سمیت نشاندہی کی ہوئی رپورٹ کو مسترد کردیا گیا ہے۔ اب بے نظیر بھٹو کے قتل کیس اور نوشہرو فیروز کی غریب ماں کے اکلوتے بیٹے محنت کش نوجوان عمران جوکھیو کے کیس میں کوئی فرق نہیں جسے مبینہ طور پولیس والوں نے اغوا کر کے شاید کب کا قتل کردیا۔ لیکن ماں کو یقین ہے کہ وہ شاید زندہ ہو اور تحقیقات پر تحقیقات، کمیٹیوں، کچہریوں پر کچہریوں کے دھکے اس کی ماں اب بھی کھا رہی ہے۔ بالکل اسی طرح پی پی پی کے جیالے نعرے مارتے ہیں ”زندہ ہے بی بی زندہ ہے“۔ ایسے نعرے میں اب ولولے اور امید سے زیادہ ایک بیچارگی اور بے بسی محسوس ہوتی ہے۔”شہید رانی“ اپنی جگہ لیکن اب تو اس کے پینا فلیکس بھی شاید کچھ دنوں کے بعد اتر کر عجائب گھروں میں ملیں۔ ایسے لگتا ہے بے نظیر بھی قوم کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والی ورکر تھیں جو اسی سوچ کی گولی کا نشانہ بنیں۔ بس وہی سوچ ہے جو پاکستان کے درپے ہے۔ یہی سوچ کبھی ملالہ یوسف زئی کو گولی مارتی ہے تو کبھی چالیس برس تک دکھی، نادار اور ضرورت مند پاکستانیوں کی خدمت کرنے والی سوئیڈش بزرگ خاتون سسٹر برگیٹا کو بندوق کا نشانہ بناتی ہے۔ کیا پاکستانی مدر ٹریسا کی اپنے وطن کو گولی سے چھلنی بدن (اور بدن سے زیادہ روح) پاکستان کا سوئیڈن کو کرسمس تحفہ ہے؟ سسٹر بارگیٹا کا قتل بھی ایک سقوط سے کم نہیں۔ہم ہر سال دسمبر میں سقوط ڈھاکہ کو روتے ہیں لیکن نہ تو کوئی اس سے اب تک سبق سیکھا اور نہ ہی ایسا پھر کبھی دہرائے نہ جانے کے اسباب کئے بلکہ ایسے ہزاروں اسباب و امکان پیدا کئے کہ جس سے باقیماندہ پاکستان میں دسمبر1971ء سے لیکر آج تک کئی ”بنگلہ دیش“ جنم لیں بلکہ ہر روز، ہر ہفتے، ہر ماہ ، ہر برس جو چھوٹا بڑا سقوط یا سقوط جیسے سانحے ہم پر گزر جاتے ہیں یا گزرنے والے ہوتے ہیں اس کے لئے ڈانگ ہم اپنی چارپائی کے نیچے نہیں پھیر کر دیکھتے۔ کیا آنے والے دنوں میں ہونے والے سقوطوں پر بھی کوئی خدشہ نظر ہے کہ نہیں؟ بلوچستان میں تو بھائی صاحبان پکنک منانے نہیں گئے نہ! کیا یہ جو قومی اسمبلی میں تازہ قانون بغیر اسپیڈ بریکر کے منظور کر لیا گیا ہے کہ جس میں فوج اور اس کی ایجنسیوں و دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کسی بھی شہری کو پوچھ گچھ کیلئے یا شک کی بنیاد پر اپنی تحویل میں رکھنے اور اس کی الیکٹرانک یا مواصلاتی نگرانی کا قانونی حق حاصل ہوگا، ایک نئے سقوط کی بنیاد نہیں ہے؟ کیا اس طرح کے قوانین اور اس سے قبل ہزاروں شہریوں کی گمشدگیاں اسلامی ری پبلک آف پاکستان کو انٹیلی جنس ری پبلک آف غائبستان نہیں بناتے؟ اگر آصف علی زرداری اصلی تے وڈی اسٹیبلشمنٹ سے بچ گئے اور ان سے ان کی پاکستان پیپلزپارٹی، تو وہ تو نیویارک ، لندن یا دبئی میں ہوں گے لیکن ایسے سیاہ قوانین کا سب سے زیادہ نشانہ بلوچ اور سندھی قوم پرستوں کے بعد پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے کارکن ہی بنیں گے اور شاید میڈیا کے لوگ بھی کہ غداروں کی فیکٹریوں کی قومی صنعت والے جہاں غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹے جاتے ہوں ملک میں محبان وطن اسٹیبلشمنٹ کے چند بھائی صاحبان،چند علمائے سو،کچھ جعلی دانشور اور غیرت مند بریگیڈ حضرات، اور چند نام نہاد جہادی بنتے ہیں۔ باقی سب ان کی پاک صاف نظروں میں اکہتر کے بنگالیوں کی طرح غدار ہیں، بہت سوں کی تو ان کی نظر میں مسلمانی پر ہی ان کو شک ہے۔ پچھلی شب نیویارک میں پاکستانیوں کے سقوط ڈھاکہ پر ایک سیمینار میں کوئی حضرت سینہ تان کر کہہ رہے تھے ”ہم نے پاکستانی فوج کیلئے پہلی گولی اپنے سینے پر کھائی تھی اور ہم تمام بنگالیوں کو ’کافر‘ سمجھتے تھے“۔ یاد رہے کہ مشرقی بنگال میں غازی اور پُراسرار بندے لوگوں کی تہبدیں اتار کر مسلمانی چیک کیا کرتے تھے! یہ تو دور کی بات ہے غازیوں اور پُراسرار بندوں نے تو بھٹو کے پھانسی کے تختہ دار پر جھول جانے کے بعد ان کی شلوار اتار کر مسلمانی کے فوٹو اتار کر آمر ضیاء الحق کو بھیجے تھے۔ اب خیر بسوں سے قمیضیں اتروا کر مسلمانی چیک کی جاتی ہے۔ اس نظر تکلفانہ سے تو اچھا ہوتا کہ ضیاء الحق کی ملٹری انٹیلی جنس محترم جی ایم سید کی لائبریری میں جاکر سر شاہنواز بھٹو کا وہ پوسٹ کارڈ ہی دیکھتی جو انہوں نے اپنے بیٹے ذوالفقار کی رسم ختنہ کی دعوت کے طور پر سید کو بھیجا تھا۔ جہان رنگ و بو سے جاتے جاتے ، جمعے کو چھٹی، شراب پر پابندی جیسے اعلانات کرنے والے بھٹو بھی یہ کہتا ہوا جاتا کہ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے۔ لیکن اس نے کہا تھا ”خدایا! میں بے قصور ہوں“ اور انہوں نے اپنی کال کوٹھڑی سے لکھا تھا: ”وقت ثابت کرے گا کہ آخری قہقہہ کون لگاتا ہے“۔ میں نے بے نظیر بھٹو کی وہ تصویر کئی بار دیکھی ہے جس میں وہ اپنے بیٹے چھوٹے بلاول کو انگلی سے پکڑے اور دوسرے بازو میں چھوٹی بیٹی کو اٹھائے اپنے قیدی شوہر سے ملنے کراچی جیل کا پھاٹک عبور کر اس کے احاطے میں داخل ہورہی ہیں۔ بقول شاعر:
ہم جئے بھی دنیا میں اور جان بھی دے دی
مگر یہ نہ کھل سکا کہ آپ کی خوشی کیا تھی
اس خاتون نے ملک کو کیا دیا اور ریاستی اورغیر ریاستی قوتوں نے اس کے جواب میں اس خاتون اور ملک کو کیا دیا۔ ایک اور سقوط؟ پھر مزہ کٹی پتنگ سمجھ کر بلیک مرسڈیز اینڈ کو نے لوٹا۔ وہ جو اس کی ریسکیو کی ضرورت کے وقت جائے واردات سے رفو چکر ہوگئے؟ کم از کم یو این کی رپورٹ بھی یہی کہتی ہے۔ لیکن حمود الرحمن کمیشن رپورٹ سے لیکر یو این کی بے نظیر بھٹو کمیشن رپورٹوں میں کونسی حکومتیں الجھتی اور اپنا وقت ضائع کرتی ہیں۔
تازہ ترین