سپریم کورٹ نے اٹھارہویں ترمیم میں صوبائی اختیارات سے متعلق کیس میں سینیٹر رضا ربانی کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔
سپریم کورٹ میں اٹھارہویں ترمیم میں صوبائی اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، سینیٹر رضا ربانی عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل میں کہا کہ عدالت نے گزشتہ روز مختلف سوالات اٹھائے تھے، مناسب ہوگا کہ اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت اٹھارہویں ترمیم کا جائزہ نہیں لے رہی بلکہ عدالت کے سامنے ایشو اٹھارہویں ترمیم کے تحت چند اسپتالوں کی تحلیل کا ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن کا احترام کرتا ہوں مقدمہ میں اپنے دلائل جاری رکھوں گا، اٹھارہویں ترمیم کے بعد کلیر یٹی کے لیے 19 ویں ترمیم لائی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا اگر صوبے صحت کے شعبے کی بہتری کی کوشش نہ کریں تو کیا وفاقی حکومت مدد کے لیے نہ آئے، کیا صوبے کو صحت کے شعبہ کا مکمل اختیار دے دیا جائے اور کیا وفاقی حکومت لوگوں کو سہولیات دینے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکے گی۔
سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ہوسکتا ہے میری تشریح غلط ہو، آئین کی منشا ہے کہ صحت کا شعبہ صوبے دیکھیں گے، اگر اسپتال صوبوں کو نہیں ملیں گے تو آئین کا آرٹیکل وقعت کھو بیٹھے گا۔
سینیٹر رضا ربانی نے کہا 1935 کے آئین میں بھی صحت کا شعبہ صوبوں کے پاس تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ قانون متحدہ ہند میں انگریزوں نے بنایا، پاکستان جدوجہد سے حاصل ہوا، ہمیں اپنی تاریخ اپنے آئین سے شروع کرنی چاہیے۔