پرانے سال کو گئے اور نئے سال کو آئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا مگر گزرتے وقت سے اپنی زندگی کے رشتے کو سمجھنے، سلجھانے کا عمل کہیں نہ کہیں شاید اب بھی زندہ ہے۔ یہ عمل ایک روایت، ایک رسم بن کر کافی اودھم مچاتا ہے۔ اس کی ایک اجتماعی شکل بھی بن گئی ہے۔ یہ کہنا بھی جائز ہے کہ وقت کے راستے میں یہ پتھر انسان نے نصب کئے ہیں ورنہ روز و شب کا یہ سلسلہ تو ہمیشہ سے جار ی ہے اور جاری رہے گا۔ پھر بھی، نیا سال ہمیں پیچھے مڑ کر اپنے عمل کا حساب کرنے اور آنے والے دنوں کے لئے امیدوں کا چراغ جلانے کا جو موقع فراہم کرتا ہے اس سے ہم ذہنی اور جذباتی طور پر فیض یاب بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ لمحات ہوتےہیں جب ہم غمِ جاناں اور غمِ دوراں کی سنگت کو محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ تو سچ ہے کہ ہمارے ذاتی دکھ اور خوشیاں باہر کے حالات سے متاثر ہوتی ہیں اسی لئے ہم دانش وروں اور ستارہ شناسوں سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ آنے والا سال کس کے لئے کیسا گزرے گا۔ یہ سوچ کر کتنا عجیب لگتا ہے کہ کسی نہ کسی حد تک ہماری اور ہمارے پیاروں کی تقدیر اپنے ملک بلکہ دنیا کی تقدیر سے جڑی ہے۔ اب کس پر کوئی کتنی مختاری کی تہمت لگائے۔
میں نے اس تبدیلی کی طرف اشارہ کیا ہے جو اپنے ملک اور اپنی دنیا میں ہوتی رہی ہے اور اس نئے سال میں ہونے والی ہے لیکن یہاں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ میں ان دنوں پاکستان سے آدھی دنیا دور ہوں۔ یہاں جنوبی کیلی فورنیا کی گھڑیاں پاکستان کےوقت سے 13 گھنٹے پیچھے ہیں۔ موسم بدلے گا تو یہ فرق 12 گھنٹے کا رہ جائے گا۔ وقت کی اس پیچیدگی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں رہ جانے والا کوئی عاشق اپنی چھت پر نکلے پورے چاند کو دیکھ کر یہ فرض نہیں کر سکتا کہ اس کی کھوئی ہوئی محبوبہ آسٹریلیا یا یورپ یا امریکہ میں اسی وقت وہی چاند دیکھ رہی ہو گی حالانکہ رومانوی افسانوں اور گیتوں نے تو اسے یہی بتایا تھا۔ لیکن نئی دنیا کی ایک حقیقت یہ بھی تو ہے کہ کوئی بھی عاشق دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود اپنی محبوبہ سے اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے نہ صرف بات کر سکتا ہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سہولت رشتہ داروں، دوستوں اور اجنبیوں، سب کو میسر ہے۔ اور یوں وقت اور فاصلوں کی اس جادونگری میں کبھی کبھی یہ سمجھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ ہم کس زمانے میں جی رہے ہیں۔ مجھے وہ فلمی مکالمہ یاد آیا کہ میں بکھر گیا ہوں، مجھے سمیٹ لو۔ اور بکھر جانے کا یہ استعارہ ہمارے ملک کے حالات کے لئے شاید مناسب ہے۔
لیکن میں اپنے اس کالم میں پاکستان کے حالات پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں اپنے دل کو ان مصروفیات سے بہلانا چاہتا ہوں جن کا موقع مجھے اپنے ملک میں نہیں ملتا۔ حالیہ برسوں میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ میں نے امریکہ آکر پاکستان کا کوئی ٹیلی وژن چینل نہیں دیکھا۔ کیونکہ صحافی ہوں اس لئے دن میں ایک دو بار انٹرنیٹ پر انگریزی اخبار کی سرخیاں ضرور دیکھ لیتا ہوںاور سوشل میڈیا سے میں نے دوستی کبھی کی ہی نہیں۔ پاکستانی تارکین وطن سے بلکہ اپنے خاندان کے دوستوں سے ملاقاتیں تو ہوتی رہی ہیں مگر میں سیاسی اور اختلافی گفتگو سے پرہیز کرتا ہوں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ ایک تو اپنی دونوں بیٹیوں کے خاندانوں کے ساتھ گزرنے والا یہ وقت ایک خواب کی مانند ہے۔ ہر دن دوسرے دن سے مختلف گزرتا ہے۔ پھر میرے بھی چند شوق ایسے ہیں جن کے لئے یہاں کافی مہلت مل جاتی ہے۔ کتابیں پڑھنا اور فلمیں دیکھنا ان میں شامل ہے۔ کتابوں کی کسی بڑی دکان میں داخل ہوتے ہی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک پوری دنیا یہاں آباد ہے اور اس میں کھو جانے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہاں آکر مجھے اس زندگی کے دن بہت یاد آتے ہیں جو میں نے بسر کی ہی نہیں اور وہ اس لئے کہ میں نے اپنے بے چین ملک سے باہر رہنے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں۔ یعنی مستقل یہاں رہنے کا تصور ہی ناقابل برداشت ہے۔ یہی اچھا ہے کہ خریدار بنے بغیر بازار سے گزرنے کا موقع ملتا ہے۔
میں نے ایک سال کے گزرنے اور نئے سال کے آنے کے حوالے سے اپنی بات شروع کی تھی۔ یہ ایک ایسا موسم ہے جو کسی بھی جگہ، کسی بھی ماحول میں سوچ اور احساس کی ایک نئی لہر بیدار کر سکتا ہے۔ تبدیلی بھی اس کا ایک عنوان ہے۔ وہ تبدیلی نہیں کہ جس کا وعدہ کوئی سیاسی جماعت کرے۔ گزرتے وقت سے جنم لینے والی تبدیلی اٹل ہے۔ ہم ہر لمحے اس کا جشن منا سکتے اور اس کا ماتم کر سکتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم اپنے مقام کی قید میں بھی زندہ رہتے ہیں۔ نیا سال سورج کے گرد زمین کی گردش کے حساب سے مشرق سے مغرب کی جانب سفر کرتا ہے۔ یوں نیا سال ٹھہر ٹھہر کر وقت کے ہر منطقے سے گزرتا ہے۔ یہاں، امریکہ کے مغربی ساحل پر ہمیں نئے سال کا کافی انتظار کرنا پڑا۔ پاکستان میں 13گھنٹے پہلے گھڑی نے 12بجا دیئے تھے۔ ایک تصوراتی لکیر وہ بھی ہے کہ جسے عبور کریں تو تاریخ ہی بدل جاتی ہےاور یہ لکیر بحرالکاہل کے وسط میں کھینچی گئی ہے۔ مجھے اپنی نوجوانی میں پڑھا ہوا وہ ناول یاد آتا ہے جس کے مرکزی کردار نے لندن میں 1872میں شرط لگائی کہ وہ 80دنوں میں دنیا کا چکر لگا کر لندن واپس پہنچ سکتا ہے۔ اس زمانے میں پانی پر صرف اسٹیمر اور زمین پر ریل کا سفر ممکن تھا۔ کہانی میں جو حیرت انگیز موڑ آتے ہیں ان سے قطع نظر ہیرو صرف چند منٹ کی تاخیر سے اپنی منزل پر پہنچتا ہے۔ سفر 80دن کا ہو چکا تھا۔ لیکن پھر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ جاپان سے مغربی امریکہ کے راستے میں اسے ایک دن تحفے میں مل چکا تھا اور وہ پہلے سے طے کی گئی تاریخ سے ایک دن پہلے لندن آگیا تھا۔ اس ناول پر بنائی گئی فلم (Around the World in 80 Days) آپ نے شاید دیکھی ہو۔ وقت کی اس پہیلی اور سورج کے غروب ہونے اور طلوع ہونے کے کرشمے کا ایک اظہار میں نے سالوں پہلے ٹیلی وژن کے ایک اشتہار میں دیکھا تھا۔ وہ موبائل فون کا اشتہار تھا کہ دنیا میں کہیں سے کہیں بھی بات کی جا سکتی ہے۔ ایک دوست کسی ساحل پر سورج کو غروب ہوتےدیکھ رہا ہے اور اس کا دوست، کہیں اور سورج کے طلوع ہونے کا منتظر ہے۔ ایک دوست کہتا ہے دیکھو یہ ڈوب رہا ہے اور دوسرا بتا رہا ہے کہ کیسے سورج طلوع ہو رہا ہے۔ سورج وہی ہے۔ دنیا وہی ہے۔ وقت کے گزرنے کی رفتار بھی وہی ہے۔ بس افراد کی اور قوموں کی زندگی کے بدلنے کا کوئی پیمانہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ یہ تقدیریں کتنی ہم خود بنا سکتے ہیں وہ بھی ہمیں معلوم نہیں۔ لیکن جستجو کرنا اور خواب دیکھنا ہمارے اختیار میں ضرور ہے۔