اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے سابق صدر آصف زرداری،جنرل پرویز مشرف اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کیخلاف این ار او کیس ختم کر تے ہوئے فیروز شاہ گیلانی کی درخواست نمٹا دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قومی مفاہمتی آرڈیننس کیس میں عدالت نے نوٹس جاری کیے، فریقین نے جواب جمع کراد یئے ہیں، اثاثوں کی تفصیلات آچکیں،اومنی گروپ کیس میں بھی پیشرفت ہوچکی، قانون اپناراستہ خودبنائے گا، عدالت نے قانونی نکات کی تشریح کرنی ہے۔اسپتالوں کی کمی پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے نیب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا نیب کے سوا سارا پاکستان چور ہے، ایک درخواست پر پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں،کیوں نہ چیئرمین نیب کا بطور سابق جج حاضری سے استثنیٰ ختم کر دیں، نیب ہر معاملے میں انکوائری کرکے سسٹم ہی روک دیتا ہے، نیکی کے کام میں ٹانگ اڑار ہا ہے،تحقیقات کاکوئی معیار ہے یانہیں۔چیف جسٹس نے چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر جنرل کو چیمبر میں طلب کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعہ کے روز درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی کی جانب سے آصف زرداری پرویز مشرف اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف این آراو کے ذریعے قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہچانے کے حوالے سے دائر کی گئی آئینی درخواست کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آصف زرداری، پرویز مشرف اور ملک قیوم کے اثاثوں کی تفصیلات آچکی ہیں، انہوں نے استفسار کیا کہ درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی کدھر ہیں ؟تو درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ وہ علیل ہیں،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدالت نے تمام فریقین کونوٹس جاری کیے تھے،انہوںنے کہا کہ اومنی گروپ کیس میں بھی بہت پیشرفت ہو چکی ہے،اب قانون اپنا راستہ خود بنائے گا،بعد ازاں عدالت نے مذکورہ بالا حکم کیساتھ آئینی درخواست نمٹا دی۔ علاوہ ازیںعدالت عظمیٰ میں اسلام آباد میں ہسپتالوں کی کمی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک درخوا ست پر ہی نیب کی جانب سے لوگوں کی پگڑیاں اچھال دی جاتی ہیں، کیانیب کے علاوہ ساراپاکستان چورہے،نیکی کے کام میں نیب ٹانگ اڑا کر بدنامی کررہا ہے، کیا صرف نیب والے سچے ہیں؟ ادارے کی تحقیقات کا معیار ہے یا نہیں؟چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے جمعہ کے روز از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو سیکرٹری نیشنل ہیلتھ ریگولیشنز نے بتایا کہ ترلائی میں 200 بیڈ کا اسپتال بنا تھا، جسٹس اعجازالاحسن نے ان سے استفسار کیا کہ جو ہسپتال بحرین حکومت نے بنانا تھا اور سی ڈی اے نے اس کیلئے اراضی دینی تھی اس کا کیا ہوا ؟ تو انہوںنے کہا کہ اس حوالے سے تاحال کچھ بھی نہیں ہوا ، عدالت کے استفسار پر سی ڈی اے کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اراضی کے حصول کے معاملہ میں نیب نے انکوائری شروع کردی ہے،جس پر چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بحرین حکومت 10 ارب روپے دینا چاہتی ہے، سی ڈی اے کیلئے سپریم کورٹ کا حکم اہم ہے یا نیب؟انہوں نے نیب حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایک درخواست پر ہی نیب کی جانب سے لوگوں کی پگڑیاں اچھال دی جاتی ہیں، نیب ہر معاملے میں انکوائری کرکے سسٹم ہی روک دیتا ہے، سپریم کورٹ کے احکامات کی تضحیک کی جارہی ہے، نیب کی تحقیقات کا کوئی معیار ہے یا نہیں؟ ایک درخواست پر لوگوں کی عزت ختم کردی جاتی ہے، کیا نیب کے علاوہ سارے چور ہیں؟ انہوں نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ چیئرمین نیب جاوید اقبال کا بطور سابق جج عدالت حاضری سے استثنیٰ ہی ختم کردیں جو ہم نے خود انہیں دیا تھا،بعد ازاںعدالت نے چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کو اپنے چیمبر میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا ،ذرائع کے مطابق چیئرمین نیب نےپراسیکیوٹر جنرل کے ہمراہ چیف جسٹس سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی جہاں پرچیئرمین سی ڈی اے اورممبراسٹیٹ خوشحال خان خٹک چیمبر میں پیش ہوئے،ذرائع کے مطابق چیف جسٹس نے چیئرمین سی ڈی اے کو ترلائی میں 200 بستروں کے ہسپتال کیلئے فوری طور پر سی ڈی اے کے بورڈ کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی اورآئندہ سماعت پر اس حوالے سے پیشرفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔