اسلام آباد(نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ نے اٹھارہویں ترمیم میں صوبائی اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سینیٹر رضا ربانی کی اس معاملے پر فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا 18ویں ترمیم کو عدالت نے آئینی اور درست قرار دیا ہے، یہ کوئی لیگل وسیاسی ایشو نہیں۔ چیف جسٹس نے ایک کیس کی سماعت کے دوران نے واضح کیا ہے کہ فیسوں میں کمی کا اطلاق ملک بھر کے 5 ہزار سے زائد فیس لینے والے تمام اسکولوں پر ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ نے 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات کی منتقلی سے متعلق مقدمہ میں سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر کراچی کو وفاق کے ما تحت کام جاری رکھنے کا حکم جاری کرنے کیخلاف حکومت سندھ کی اپیل کی سماعت کے دوران اٹھارویں ترمیم کے محرک وسابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی ایڈووکیٹ کی اس کیس کی سماعت فل کورٹ کے سامنے مقرر کرنے کی استدعا مسترد کردی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے فاضل وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ 18ویں ترمیم آئینی اوردرست ہے، عدالت نے صرف قانونی نقطہ کی تشریح کرنی ہے،اگر صوبے صحت کے شعبہ کی بہتری کیلئے کوششیں نہ کریں تو کیا وفاقی حکومت عوام کی مددکیلئے نہ آئے؟ کیاآپ چاہتے ہیں کہ وفاق صرف گرانٹ جاری کرے باقی کردار صوبوں کا ہو؟کیا غریبوں کو محض صوبائی حکومتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں؟چیف جسٹس میاںثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس مقبول باقر،جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے جمعہ کے روز سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف حکومت سندھ کی اپیل کی سماعت کی تو رضا ربانی نے اپنے جمعرات کے روز کے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ یہ ایک اہم آئینی اور حساس معاملہ ہے جس میں فاضل عدالت نے 18ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے مختلف سوالات اٹھا ئے ہیں اس لئے مناسب ہو گا کہ اس معاملہ کی سماعت کے لئے فل کورٹ تشکیل دی جائے تاکہ یہ تنازع ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہی ختم ہوجائے ،جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے واضح کیا کہ عدالت اس کیس میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کا جائزہ نہیں لے رہی بلکہ ہمارے سامنے اس ترمیم کے نتیجہ میں 3اسپتالوں کی وفاقی حکومت سے صوبائی حکومتوں کو منتقلی کا معاملہ زیر سماعت ہے۔ عدالت نے رضا ربانی کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی،جس پر انہوںنے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ کہا کہ18ویں آئینی ترمیم کے بعد اس کی وضاحت کے لیے آئین میں 19 ویںترمیم لائی گی تھی۔ چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ کیا صوبے کو صحت کے شعبہ کا مکمل اختیار دیدیا جائے، کیا وفاقی حکومت لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکے گی؟ جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ میری تشریح غلط ہو لیکن آئین کی منشا یہی ہے کہ صحت کے شعبہ کو صوبے ہی دیکھیں گے،یہ محض ایک قانونی ہی نہیں بلکہ ایک سیاسی معاملہ بھی ہے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں، اٹھارویں ترمیم کو عدالت نے بھی آئینی اور درست قرار دیا ہے، ہمارے سامنے چھوٹے بڑے صوبے کا سوال نہیں، چھوٹے بڑے صوبے کا تفرقہ پیدا نہیں کرنا چاہیے،عدالت کے سامنے ایک سادہ سا قانونی سوال ہے اور عدالت نے اس کے قانونی نکات کی تشریح کرنی ہے، انہوںنے فاضل وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ رضا ربانی صاحب آپکی طویل سیاسی جد و جہد ہے، سیاسی جد جہد کرنے والی شخصیات کو چھوٹے بڑے صوبے کا تفرقہ پیدا نہیں کرنا چاہیے، آپ اس میں سے سیاست کو نکال کر آئین کی بات کریں۔ دوران سماعت سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وکیل صلاح الدین اور وائس چانسلر نے بھی دلائل پیش کئے۔بعد ازاں عدالت نے شیخ زید اسپتال لاہور کے معاملہ کو بھی اسی کسی کے ساتھ یکجا کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے سماعت پیر 7؍جنوری تک ملتوی کر دی ۔دریں اثناایک اورکیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے 5ہزار روپے سے زائد فیسیں وصول کرنے والے اسکولوں کو فیسوں میں 20 فیصد کمی کا حکم دیا تھا اورسکول ہی سیل کرنا شروع کردیئے گئے۔ انہوںنے واضح کیا کہ ہمارا فیسوں میں کمی کا حکم نامہ صرف 27 بڑے اسکولوں کی حد تک ہی نہیں تھا بلکہ ملک بھر میں5ہزار سے زائد فیس وصول کرنے والے تما م نجی اسکولوں پر لاگو ہے۔