• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2016ء میں INSEAD Innovation and Policy Initiativeکے فیلو کائی چن (Kai Chan) نے زبانوں کی افادیت پر ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ مقالہ میں حاصل شدہ اعدادوشمار کی مدد سے 20اشاریوں کی بنیاد پر دنیا کی مختلف زبانوں کے اثرورسوخ کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ مقالہ میں ایک سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تھی:’عالمی نقطہ نظر سے ایک شخص کے لیے زندگی میں سرگرم رہنے کے لیے کون سی زبان سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے؟‘

سائنسی نتائج کی روشنی میں زبانوں کو صفر سے ایک تک کا اسکور دیا گیا۔ صفر(سب سے کم مؤثر) اور ایک (سب سے زیادہ مؤثر) اسکور تھا۔ متوقع طور پر اس تحقیقی مقالہ میں0.889اسکور کے ساتھ انگریزی زبان کو دنیا کی مؤثر ترین زبان کا درجہ دیا گیا۔ انگریزی کو دنیا کی ’جگت بھاشا‘ اور ’مخلوط زبان‘ (Lingua Franca)کہا جاتا ہے۔ 0.411کے ساتھ چین کی مادری زبان مندرین (Mandarin)کو دوسری مؤثر ترین زبان قرار دیا گیا۔ اس درجہ بندی سے2باتیں ثابت ہوئیں، اول تو یہ کہ انگریزی دنیا کی مؤثر ترین زبان ہے اور دوئم یہ کہ اپنی قریب ترین حریف زبان سے دُگنی طاقتور ہے۔

اب دو سال بعد کائی چن اپنے اسی مقالہ سے متعلق کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں اتنی زیادہ طاقتور درجہ بندی کے باوجود اس مقالہ میں انگریزی کی افادیت کو صحیح معنوں میں بیان نہیں کیا جاسکا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ سرکاری اعدادوشمار میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ عالمی سطح پر دنیا کے تقریباً ہر ملک میں مادری زبان کے بعد انگریزی کو دوسری اہم ترین زبان کا درجہ حاصل ہے۔ آج کے معاشروں میں دو زبانیں بولنے والوں (Bilingual)سے عمومی طور پر یہی مراد لی جاتی ہے کہ وہاں کے لوگ مادری زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی روانی سے بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کہیں اجنبی افراد ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو وہ سب سے پہلے یہی جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا سامنے والا انگریزی میں بول چال کرسکتا ہے یا نہیں۔ اسی طرح، غیرملکیوں کو تعلیم دینے کے لیے بھی انگریزی ہی کو اکثر دوسری زبان کی حیثیت دی جاتی ہے۔

مزید برآں، انگریزی لاطینی اسکرپٹ کی زبان ہے، جس کے باعث دنیا کے اکثر لوگوں کے لیے اسے سمجھنا آسان ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، دنیا کی بیشتر جامعات (جوکہ کائی چن کے انڈیکس میں شامل تھیں) اکثر مقامی زبان کے بجائے انگریزی زبان میں کام کرتی ہیں۔ یہ بات خود کو عالمی اور تحقیقی جامعات کہلوانے والی جامعات کے بارے میں اور زیادہ وثوق سے کہی جاسکتی ہے۔ دنیا کی کئی جامعات انگریزی زبان میں پروگرام اور ڈگریاں پیش کرتی ہیں، تاکہ وہ بین الاقوامی طلبہ کواپنی طرف متوجہ کرسکیں۔

درحقیقت، سائنس، بزنس اور ریسرچ کی زبان ہونے کے باعث، دُنیا کے اکثر ملکوں میں پیشہ ورانہ زندگی میں انگریزی زبان کو ہی اختیار کیا جاتا ہے، جبکہ وہاں مقامی زبانیںگھر اور حلقہ احباب تک محدود ہیں۔

انگریزی زبان نہ صرف عالمی سطح پر تمام زبانوں پر غالب ہے بلکہ کئی ملکوں میں مقامی سطح پر مادری زبان کے مقابلے میں بھی زیادہ مؤثر ہے۔ یہ صورت حال ان معاشروں میں بھی دیکھی جاتی ہے، جہاں انگریزی زبان کو قانونی یا سرکاری حیثیت تک حاصل نہیں ہوتی۔

مثال کے طور پر، دبئی میں انگریزی کو Lingua Francaکی حیثیت حاصل ہے، حالانکہ وہاں کی اکثریتی آبادی کی مادری زبان انگریزی نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کی مثالیں شاذونادر نہیں ہیں۔متنوع بین الاقوامی معاشروں میں انگریزی ہی کو ’ڈیفالٹ لینگویج‘ کی حیثیت حاصل ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ وہ پالیسی ساز جو اپنی مادری زبانوں کا تحفظ چاہتے ہیں، انھیں مادری زبانوں کے تحفظ کے قوانین کی موجودگی اور انگریزی بولنے والی اکثریتی آبادی کی عدم موجودگی کے باوجود، اپنے معاشروں میں انگریزی زبان کے Lingua Franca بننے اور باہمی گفتگو کے لیے اس کے ’ڈیفالٹ‘ اور ’ڈی فیکٹو‘ زبان بننے کے کردار کو ضرور مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ یہاں تک کہ جہاں مادری زبان بہت طاقتور ہے، ان معاشروں میں بھی انگریزی زبان کا وزن بھاری ہوسکتا ہے جبکہ ایسے معاشروں میں اقلیتی زبانوں کے وجود تک کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

کیس اسٹڈی:مونٹریال

پیرس کے بعد، کینیڈا کا شہر مونٹریال دُنیا کا دوسرا سب سے زیادہ فرانسیسی آبادی والا شہر ہے۔ اس شہر میں دو تہائی آبادی کی مادری زبان فرانسیسی ہے۔یہاں کے 90فیصد سے زائد افراد فرانسیسی زبان میں بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مونٹریال میں صرف 13فیصد لوگوں کی مادری زبان انگریزی ہے۔

ہرچندکہ کینیڈا کی سرکاری زبان انگریزی ہے، تاہم ریاستِ کیوبک یا مونٹریال سٹی میں اسے یہ درجہ حاصل نہیں ہے، یہاں صرف فرانسیسی زبان کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس حدبندی کے باوجود، مونٹریال سٹی کے 60فیصد لوگ انگریزی زبان میں بات چیت کرتے ہیں۔ مزید برآں، زیادہ تر سیاح اور عارضی رہائش پذیر افراد انگریزی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، میک گِل یونیورسٹی مکمل طور پر انگریزی جامعہ ہے، جہاں دو تہائی طلبہ ریاستِ کیوبک کے باہر سے تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔

ریاستِ کیوبک میں فرانسیسی زبان کے تحفظ اور انگریزی زبان کو تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود، کائی چن کے تحقیقی مقالہ کی روشنی میں مونٹریال سٹی ایریا کے لیے مؤثر ترین زبانوں کے انڈیکس میں انگریزی کو مسابقتی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ کائی چن کے ’پاور لینگویجز‘ انڈیکس کے مطابق، مونٹریال سٹی ایریا میں 0.690اسکو ر کے ساتھ فرانسیسی کو پہلا درجہ اور 0.599کے ساتھ انگریزی زبان کو دوسرا درجہ حاصل ہے۔ یہاں یہ بات بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس شہر میں فرانسیسی اور انگریزی زبانوں کے درمیان اسکور میں 0.1سے بھی کم فرق رہ گیا ہے، جو آنے والےبرسوں میں نہ صرف ختم ہوسکتا ہے، بلکہ دونوں زبانوں کی درجہ بندی بھی بدل سکتی ہے۔

تازہ ترین