• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شائرین رانا، ملتان

ہمارے ہاں سرکاری منصوبوں کو ادھورا چھوڑنے، ردّی کی ٹوکری میں پھینکنے کا رواج عام ہے، جس کے منفی نتائج عوام ہی کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہ کام کرنے کی بجائے محض لمبے چوڑے اعلانات ہی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ گزشتہ سال نوجوانوں سے متعلق منصوبوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک دیکھنے میں آیا۔اقتدار کی منتقلی اور سیاسی اُتار چڑھائو کے باعث بچّوں اور نوجوانوں کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے، مگر اس سیاسی تنائو میں نظرانداز ہونے کے باوجود متعدّد باصلاحیت نوجوان اپنے وطن کا نام دنیا بھر میں بلند کرنے کے لیے کوشاں رہے۔2018 ء میں بھی حسبِ سابق بچّوں کے بنیادی حقوق کی دھڑلّے سے خلاف ورزیاں جاری رہیں۔ بچّے، چائلڈ لیبر کے ساتھ جسمانی تشدّد کا بھی شکار ہوئے، جس میں گھریلو ملازم بچّوں پر تشدّد سرِفہرست رہا۔ اسی طرح بچّوں کی اسمگلنگ کے واقعات بھی خبروں کا حصّہ بنے۔ نوجوانوں کے ووٹ سے اقتدار میں آنے والی تحریکِ انصاف کی حکومت اپنے مِنی بجٹ اور ایک سو دنوں کے ایجنڈے میں نوجوانوں کے لیے کوئی نئی اسکیم سامنے تو نہ لاسکی، تاہم نوجوانوں کی صحت کے تحفّظ کے لیے قومی اسمبلی میں پہلی خوش آئند قانون سازی ضرور کی گئی، جس میں’’ تمباکو نوشی بچگان مغربی پاکستان (تنسیخی) بِل 2018ء‘‘ منظور کیا گیا۔ سابق حکومت کی جانب سے پیش کردہ وفاقی بجٹ 2018-19ء میں’’ وزیرِ اعظم یوتھ اسکیم‘‘ کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے تھے، تاہم بات بجٹ تجویز ہی تک محدود رہی۔

2018 ء انتخابی سال ہونے کے ساتھ، اس لحاظ سے تبدیلی کا سال بھی قرار پایا کہ مُلکی تاریخ میں پہلی بار نوجوانوں نے ووٹ مانگنے کے لیے آنے والے سیاست دانوں سے اُن کی کارکردگی پر سخت سوالات کیے۔ دوسری جانب، نوجوانوں کی خاصی معقول تعداد اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے میں کام یاب رہی، جن میں بلاول بھٹّو زرداری قابلِ ذکر ہیں۔ نیز، وہ 10 طالبِ علم رہنما بھی نئی اسمبلی کا حصّہ بنے، جن کا تعلق انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن (آئی ایس ایف) سے رہا۔ ان میں زرتاج گل، تاشقین، شاہد خٹک، مُراد سعید، میاں فرّخ حبیب، عالم گیر محسود، سمیرا شمس، ارسلان گھمن اور بتول جنجوعہ شامل ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے سیال کوٹ سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک نوجوان رہنما، عثمان ڈار کو نوجوانوں کے لیے قومی پالیسی کی تیاری کا ٹاسک سونپا اور اُن کے مطابق، وہ جلد’’ قومی یوتھ پالیسی‘‘ حکومت کو پیش کردیں گے۔ گزشتہ سال منظرِ عام پر آنے والی’’ اقوامِ متحدہ ڈویلپمنٹ پروگرام‘‘ کی’’ نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ‘‘ کے مطابق، پاکستان کو ہر سال13 لاکھ اضافی ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔یاد رہے، پی ٹی آئی نے نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا ہے، جو کسی امتحان سے کم نہیں۔

2018ء بچّوں کے حوالے سے تلخ رہا کہ سال کے آغاز میں قصور میں8 سالہ بچّی کو درندگی کا نشانہ بنا کر موت کی نیند سلا دیا گیا۔ مجموعی طور پر گزشتہ برس کے دوران بچّوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ پہلے چھے ماہ میں، بچّوں کے اغوا، تشدّد اور زیادتی سمیت مختلف جرائم کے2322 سے زاید واقعات رپورٹ ہوئے، جب کہ 57 بچّوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ بچّوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم’’ ساحل‘‘ کے اعدادوشمار کے مطابق، بچّوں کے خلاف مختلف جرائم کے زیادہ تر واقعات پنجاب میں رپورٹ ہوئے۔ اعدادوشمار کے مطابق سال 2018ء کے پہلے چھے ماہ کے دوران سامنے آنے والے واقعات کے لحاظ سے یومیہ 12سے زیادہ بچّے مختلف جرائم کا شکار ہوئے۔ سابقہ پنجاب حکومت کی جانب سے بچّوں کو جنسی ہراسانی سے بچانے کے لیے نصاب میں اسباق شامل کرنے کا اعلان کیا گیا، تاہم یہ اعلان ابھی تک عمل درآمد کا منتظر ہے۔ علاوہ ازیں، گزشتہ برس بچّوں کی نازیبا ویڈیوز بنا کر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شیئر کرنے کے بھی کئی واقعات سامنے آئے۔ ایف آئی اے سائبر کرائمز یونٹ، لاہور نے اس گھنائونے کھیل میں ملوّث بین الاقوامی گروہ کے ایک کارندے کو جھنگ سے گرفتار کرکے انٹرپول کینیڈا کی اطلاع پر ملزم کے لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر سے 60 جی بی ڈیٹا بھی برآمد کیا۔ بچّوں سے زیادتی کے واقعات کے حوالے سے گزشتہ دورِ حکومت میں مجرمان کی سزا بڑھانے کا ترمیمی بِل منظور کیا گیا، جس کے مطابق بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات روکنے کے لیے مجموعہ تعزیراتِ پاکستان 1860 ء اور مجموعہ ضابطۂ فوج داری 1898 ء میں ترامیم کی گئیں۔ مجموعہ تعزیراتِ پاکستان 1860 ء کی دفعہ 292 ج میں ترمیم کی گئی ہے، جس کے تحت دو سال اور سات سال کی سزا کو بڑھا کر 14 سال اور 20 سال کردیا گیا، جب کہ جرمانہ پہلے دو لاکھ سے سات لاکھ روپے تک تھا، جسے بڑھا کر 10 لاکھ کردیا گیا۔ ایوان نے متفقّہ طور پر اس بِل کی منظوری دی۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے،’’ یونیسیف‘‘ کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان نومولود بچّوں کی اموات کے لحاظ سے دنیا کا سب سے خطرناک ترین مُلک قرار پایا۔ سال 2018ء میں سندھ کے ضلع تھرپارکر میں غذائی قلّت اور دیگر طبّی وجوہ کے باعث بچّوں کی اموت کا سلسلہ نہ تھم سکا۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق527 سے زاید بچّے موت کے منہ میں چلے گئے۔ سیکرٹری صحت، سندھ کا کہنا تھا کہ چار برس میں 1832 بچّے جاں بہ حق ہوچُکے ہیں۔ گو کہ سابق حکومت نے وفاقی بجٹ میں بچّوں کو مطلوبہ غذائیت کی فراہمی کے لیے 10 ارب روپے کی لاگت سے جامع پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، جس میں 2020ء تک اس مسئلے پر قابو پانے کا عندیہ دیا گیا، تاہم بہتری کے واضح آثار نظر نہیں آئے۔ نیز، گزشتہ برس نوجوانوں کے لیے تعلیمی اصلاحات کا صحیح معنوں میں نفاذ نہ ہوسکا۔ نون لیگ کی حکومت میں پنجاب کی سطح پر اے پلس گریڈ حاصل کرنے والے طلبہ کو لیپ ٹاپ دیے جاتے تھے، تاہم موجودہ حکومت نے لیپ ٹاپ اسکیم ختم کرنے کا اعلان کردیا، جب کہ دانش اسکولز سسٹم میں بھی اصلاحات کا فیصلہ کیا گیا۔ اس ضمن میں خوش آیند بات یہ رہی کہ برطانوی ہائی کمیشن کی جانب سے عاصمہ جہانگیر کی انسانی حقوق کے لیے خدمات کے اعتراف میں ہر سال ایک ذہین پاکستانی طالبِ علم کو برطانوی یونی ورسٹی میں اسکالرشپ دینے کا اعلان کیا گیا اور 2018 ء کی اسکالر شپ، پاکستانی طالبہ، ثنا گل کے حصّے میں آئی۔2018ء میں پاکستان بیرونِ مُلک مقیم اپنی ایک ہونہار طالبہ سے محروم ہوگیا۔ اسکول میں ہونے والی فائرنگ میں جاں بہ حق ہونے والے 10 طلبہ میں کراچی کی سبیکا شیخ بھی شامل تھیں۔ سبیکا او لیول کی طالبہ تھی، جو 21 اگست 2017ء کو’’ کینیڈی لوگر یوتھ ایکس چینج اینڈ اسٹڈی پروگرام‘‘ کے تحت امریکا گئی تھیں۔

گزشتہ برس حکومتی سطح پر نوجوانوں کی صلاحیتوں میں نکھار کے لیے عملی اقدامات ہوتے دِکھائی نہیں دیے، تاہم نوجوانوں نے مایوسی کا شکار ہونے کی بجائے دنیا بھر میں مُلک و قوم کا نام روشن کیا۔ ملالہ یوسف زئی نے گزشتہ سال بہت سے اعزازات اپنے نام کیے۔اُنھیں آکسفورڈ کے طلبہ نے سوشل سیکرٹری منتخب کیا، تو مباحثہ سوسائٹی کی سرگرم رُکن بھی بن گئیں۔ نیز، اُنہیں بچّیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنے پر ہارورڈ کینیڈی اسکول کی جانب سے گلٹس مین(Gleitsman)ایوارڈ 2018ء سے بھی نوازا گیا۔ اس کے علاوہ برطانوی نیوز ویب سائٹ،’’ یوگو ‘‘کی سالانہ جائزہ رپورٹ کے مطابق 2018ء میں دنیا میں سب سے زیادہ سراہے جانے والے افراد کی فہرست میں ملالہ یوسف زئی ساتویں نمبر پر رہیں۔ ملالہ اور ایپل کمپنی کے مابین پس ماندہ ممالک، بہ شمول پاکستان، کی لڑکیوں کو تعلیم دینے کا معاہدہ طے پایا۔ ملالہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے لندن کی نیشنل پورٹریٹ گیلری میں ان کا پورٹریٹ بھی آویزاں کیا گیا۔ پاکستان کی ننّھی نو سالہ کوہ پیما، سیلینا خواجہ نے ہنزہ میں واقع، قزسر کی پانچ ہزار، سات سو فِٹ بلند چوٹی سَر کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا، تو گلگت بلتستان کی 13 سالہ آمنہ حنیف،14 سالہ مریم بشیر اور 15 سالہ سعدیہ بتول نے شمشال وادی میں قراقرم پہاڑی سلسلے کی 6 ہزار 80 میٹر اونچی منگلیسر چوٹی سَر کر ڈالی۔ اسی طرح وادیٔ ہنزہ سے تعلق رکھنے والی چھے بہادر لڑکیوں نے کسی مَرد کوہ پیما کی مدد حاصل کیے بغیر پانچ ہزار، تین سو میٹر بلند، شفتین سَر کی چوٹی شمال کی جانب سے سَر کرکے نئی تاریخ رقم کردی۔ اس ٹیم میں مینجر حفیضہ بانو، افسانہ شاہد، شکیلہ، ندیمہ، سحر، سمرین اور زبیدہ وحید شامل تھیں۔ 11برس کے پاکستانی بچّے، حمّاد صافی کے دنیا بھر میں چرچے رہے، جس کی وجہ ان کا خود اعتمادی کے ساتھ اپنے سے بڑے افراد کو مختلف عنوانات پر لیکچر دینا ہے۔یہ اعزاز بھی کیا کم ہے کہ مینگورہ سے تعلق رکھنے والے 12 سالہ محمّد حسن نے مدینہ منورہ میں منعقدہ مقابلے میں، جہاں 85 مُلکوں کے ماہر قراء موجود تھے، پوزیشن حاصل کی۔ نیز، ینگ پاکستانی ایمبیسیڈر، سارنگ ہوت بلوچ نے ماسکو میں فیفا ورلڈ کپ2018 ء کی افتتاحی تقریب میں پاکستانی پرچم اٹھا کر مُلک کی نمائندگی کی۔ واضح رہے، یہ پہلا موقع تھا جب کسی پاکستانی نوجوان نے فیفا ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب میں یوں پاکستانی پرچم لہرایا۔ فیفا ورلڈ کپ ہی میں دوسرا اعزاز پاکستان کے15 سالہ نوجوان احمد رضا کے نام رہا، جنھوں نے برازیل اور کوسٹا ریکا کے مابین میچ کا ٹاس کیا تھا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی قانون کی طالبہ، شہر بانو تجمّل نے لندن یونی ورسٹی میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے انٹرنیشنل طالب علم کا اعزاز حاصل کیا۔ اسی طرح’’ دی کنگز کالج، لندن‘‘ نے گزشتہ برس اپنی اسٹوڈنٹ یونین کے پہلے نان یورپین یونین صدر کی حیثیت سے پاکستانی طالب علم کے انتخاب پر اس کی کام یابی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی تصویر اپنی مرکزی لابی میں آویزاں کی۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے، مومن ثاقب، کنگز کالج، لندن کی 144 سالہ تاریخ میں پہلے’’ نان ای یو‘‘ صدر بنے۔ سعودی عرب سے پی ایچ ڈی کرنے والی پاکستانی طالبہ، قرّاۃ العین نے’’ کنگ عبداللہ یونی ورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ میں ’’ مارکونی سوسائٹی پال بیرن ینگ اسکالر ایوارڈ‘‘ اپنے نام کیا۔ اُن کی تحقیق موجودہ وائرلیس کمیونی کیشن سسٹمز سے بہت درجے بہتر ہے۔ پاکستان کی19 سالہ ویٹ لفٹر، رابعہ شہزاد نے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں’’ رالف کیش مین اوپن ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ‘‘ کی ایک کیٹیگری جیتی، تو ماہور شہزاد بحرین کی انٹرنیشنل بیڈمنٹن سیریز کے بعد عالمی رینکنگ میں ٹاپ 200میں آنے والی پہلی پاکستانی کھلاڑی بن گئیں۔ پاکستان کی ایک نجی یونی ورسٹی کے طالبِ علم، علی سہیل کی فلم’’ تخلیقِ ارض‘‘ نے ایک بین الاقوامی فیسٹیول میں ایوارڈ جیتا، جس میں مختلف ممالک کی جانب سے 91 فلمز پیش کی گئی تھیں۔بکنگھم پیلس میں منعقدہ تقریب میں ملکۂ برطانیہ نے تین پاکستانی نوجوانوں، حسن مجتبیٰ زیدی، ماہ نور سیّد اور ہارون یاسین کو’’ کوئنز ینگ لیڈرز ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔ضلع سوات کے گائوں، قمبر کی بائیس سالہ، صنم بخاری نے’’ گوئی پیس فائونڈیشن، جاپان‘‘ کی طرف سے منعقدہ بین الاقوامی مقابلہ مضمون نویسی 2018ء میں شرکت کرکے یوتھ کیٹیگری میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ معروف امریکی کاروباری جریدے’’ فوربز‘‘ کی سالانہ’’30 انڈر 30‘‘ ایشیا فہرست میں مجموعی طور پر نام زَد 300 افراد میں 9 پاکستانی نوجوان بھی شامل ہیں۔ نیورواسٹک ہیلتھ کمپنی کے بانی، محمّد اسد رضا اور اُن کے ساتھی، ابراہیم شاہ نے ترقّی پزیر مُمالک کے لیے انتہائی کم قیمت اور بہترین معیار کی میڈیکل ڈیوائس’’ نیورو اسٹک‘‘ بنائی، جو ہاتھ پائوں سے محروم افراد کے لیے انتہائی کارآمد ہے، یہی وجہ ہے کہ جریدے نے اُنہیں ہیلتھ کیئر اسٹارٹ اپ کیٹگری میں شامل کیا۔ 17 سالہ محمّد شہیر نیازی کو سائنسی میدان میں تحقیقات و خدمات پر ینگسٹ اور ہیلتھ کیئر اینڈ سائنس کی کیٹیگری میں شامل کیا گیا، تو نوجوان گلوکارہ، مومنہ مستحسن موسیقی کی کیٹگری میں شامل ہوئیں۔ عالمی جریدے نے عدنان شفیع اور عدیل شفیع، دونوں بھائیوں کو ریٹیل اینڈ ای کامرس کی کیٹیگری میں شامل کیا۔ یہ’’ پرائس اوئے‘‘ کے بانی ہیں، جو الیکٹرانکس کے شعبے میں قیمتوں کے موازنے کا پلیٹ فارم ہے۔ اسی طرح ’’بوند شمس‘‘ سولر واٹر پراجیکٹ کے بانی، حمزہ فرّخ کو سوشل انٹرپرینور کی کیٹگری میں منتخب کیا گیا۔24 سالہ حمزہ فرّخ نے اس پراجیکٹ کے تحت سورج کی روشنی سے چلنے والا واٹر ایکسٹریکشن اور فلٹر سسٹم بنایا، جو دیہات میں سیکڑوں لوگوں کی پانی کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ سیّد فیضان حسین کو بھی سوشل انٹرپرینور کی کیٹیگری میں ہیلتھ اور تعلیمی میدان میں خدمات انجام دینے پر نام زَد کیا گیا۔ اُنہوں نے ایک ایسا پیری ہیلیئن سسٹم بنایا، جس میں سائن لینگویج اور مختلف بیماریوں کا پتا لگانے والا ٹریکنگ سسٹم بھی شامل ہے۔ سعدیہ بشیر نے انٹرپرائز ٹیکنالوجی کی کیٹیگری میں اپنی جگہ بنائی۔علاوہ ازیں، پاکستانی طالبہ دانیا حسن نے امریکی محکمۂ خارجہ کا’’ امرجنگ ینگ لیڈرز ایوارڈ‘‘ جیتا۔ دانیا نے جان ہاپکنز یونی ورسٹی کے سمر اسکول میں یو ایس سمر سمسٹرز ایکسچینج پروگرام کے ذریعے شرکت کی تھی۔ نیز یہ بھی مُلک کے لیے اعزاز ہے کہ کراچی کے ایک غریب ویلڈر کا بیٹا، راشد نسیم مارشل آرٹس میں ریکارڈ ہولڈر بنا اور اس کا نام گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہوا۔

تازہ ترین