آج مجھے ایک وعدہ پورا کرنا ہے۔ یہ وعدہ میں نے ملک حاکمین خان سے اُن کی زندگی میں کیا تھا لیکن افسوس کہ 2019ء شروع ہوتے ہی وہ یہ دنیا چھوڑ گئے اور میں یہ وعدہ اُن کی وفات کے بعد پورا کر رہا ہوں۔ ملک صاحب سے میری پہلی ملاقات 1988ء میں ہوئی جب وہ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے چیف وہیپ ہوا کرتے تھے۔ نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ اور رانا شوکت محمود اپوزیشن لیڈر تھے۔ رانا ثناء اللہ، غضنفر گل، وصی ظفر اور فضل حسین راہی مرحوم پیپلز پارٹی کے وہ جیالے تھے جو پنجاب اسمبلی میں نواز شریف اور اُن کے وزیر خزانہ شاہ محمود قریشی کی ایک نہ چلنے دیتے۔ ملک حاکمین خان اسمبلی کے اندر بھی متحرک رہتے اور باہر بھی سرگرم۔ جب ملک صاحب اپنے سیاسی مخالفین کو لاجواب کر دیتے تو وہ اُن پر پھبتی کستے کہ آپ تو وہ ہیں جس نے پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات کے طور پر یہ بیان دیا تھا کہ ہم صوبے میں جیلوں کا جال بچھا دیں گے۔ ملک صاحب بڑے صبر و تحمل سے کہتے کہ جائو اور اسمبلی کا ریکارڈ کھنگالو، میں نے کبھی ایسی بات نہیں کی۔ مجھ پر غلط الزام نہ لگائو لیکن مخالفین ثبوت لانے کے بجائے کہتے کہ جو بات پاکستان کے ہر سیاسی کارکن کو معلوم ہے، اُس کے لئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ کبھی کبھی ہم بھی از راہِ تفنن ملک صاحب کو پوچھتے کہ یہ صوبے میں جیلوں کا جال بچھانے والا بیان آپ سے کیسے منسوب ہوا؟ تو وہ کہتے کہ یہ ظلم میرے ساتھ ایک دوست نے کیا اور میں جب بھی اسمبلی کے اندر اور باہر مخالفین سے طنز کے نشتر کھاتا ہوں تو ظالم دوست کا نام اپنی زبان پر نہیں لا پاتا کیونکہ وہ میرا اپنا ہے لیکن مجھے اُمید ہے کہ کبھی نہ کبھی تو وہ دنیا کو خود ہی بتا دے گا کہ میں نے تو یہ کہا تھا کہ ہم صوبے کی جیلوں میں اصلاحات کا جال بچھا دیں گے لیکن دوست نے اپنے اخبار کے صفحہ اول پر یہ سرخی جما دی کہ ہم صوبے میں جیلوں کا جال بچھا دیں گے۔ اس دوست کا نام عباس اطہر تھا جو اس زمانے میں پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار ’’مساوات‘‘ کے چیف نیوز ایڈیٹر تھے۔ ملک حاکمین خان پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات و ہائوسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ تھے۔ ایک دن عباس اطہر اور اخبار کے منیجنگ ایڈیٹر میاں اسلم نے ملک حاکمین کا ایک انٹرویو کرایا اور جیلوں میں اصلاحات کے جال کو جیلوں کا جال بنا کر ملک صاحب کے لئے ایک بہت بڑی مشکل کھڑی کر دی۔ ملک صاحب نے اس سرخی کی تردید کی لیکن یہ تردید اُن کی اپنی پارٹی کے اخبار میں شائع نہ ہو سکی۔ یہ وہی عباس اطہر تھے جنہوں نے روزنامہ آزاد میں ذوالفقار علی بھٹو کی ایک تقریر میں سے ’’اِدھر ہم، اُدھر تم‘‘ کی سرخی نکالی۔ بھٹو صاحب نے اس سرخی کی تردید کر دی لیکن یہ سرخی آج بھی اُن کے نام کے ساتھ ایک الزام بن کر جڑی ہے۔ یہی معاملہ ملک حاکمین خان کے ساتھ تھا۔
ایک دفعہ ملک حاکمین خان کو پتا چلا کہ انور عزیز چوہدری اور عباس اطہر میں بڑی دوستی ہے۔ انور عزیز چوہدری ایک ایسے انسان ہیں جنہیں مختلف شاعروں کے ہزاروں اشعار یاد ہیں اور وہ ہر محفل کی جان بن جاتے ہیں۔ عباس اطہر بھی شاعر تھے اور چوہدری صاحب کا بہت احترام کرتے تھے۔ ملک حاکمین خان نے اپنے از خود اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے چوہدری صاحب کو عدالت میں تبدیل کیا اور عباس اطہر کے خلاف درخواست دائر کر دی۔ اس درخواست کی کئی سماعتیں ہوئیں اور ایک دن عباس اطہر صاحب نے مسکراتے ہوئے اپنا جرم تسلیم کر لیا۔ ملک حاکمین خان نے فوری طور پر مجرم کے لئے سزائے موت تجویز کر دی لیکن عدالت کے جج انور عزیز چوہدری نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ مجرم تمام عمر اپنے گناہ کی تلافی کرے گا اور ملک حاکمین کا اخلاقی قیدی تصور کیا جائے گا۔ بعد ازاں عباس اطہر صاحب نے ایک کالم کے ذریعہ ملک حاکمین خان کو بے قصور قرار دیا لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہ وفات پا گئے۔ ملک صاحب اکثر مجھے ملتے تو کہتے کہ یار بھتیجے! تم بھی اپنے بزرگوں کے گناہ کی تلافی کرو، میرے بارے میں ایک وضاحتی کالم لکھ دو یا مجھے اپنے ٹی وی پروگرام میں بلا کر کلیئر کر دو کیونکہ جو بات میں نے کہی نہیں تھی، وہ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہو کر تیسری نسل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ میں نے ملک صاحب سے وعدہ کیا کہ فکر نہ کریں! میں آپ پر کالم ضرور لکھوں گا۔ 2016ء میں ملک صاحب نے ’’خار زارِ سیاست کے شب و روز‘‘ کے نام سے اپنی آپ بیتی شائع کی اور مجھے کہا کہ اس کتاب میں عباس اطہر کا وہ کالم شامل کر دیا ہے جو انہوں نے اپنے اعترافِ جرم کے طور پر لکھا تھا۔
میں نے کئی دفعہ ملک صاحب کی کتاب پر کالم لکھنے کا ارادہ کیا لیکن کسی نہ کسی بڑے واقعے کی وجہ سے اپنا یہ کالم آگے ڈالتا رہا۔ پچھلے ہفتے لاہور میں محمد مالک کے برخوردار کی دعوت ولیمہ میں انور عزیز چوہدری ملے تو نجانے کیوں مجھے ملک حاکمین خان یاد آنے لگے اور میں سوچتا رہا کہ ملک صاحب سے کیا گیا وعدہ اب پورا کر دینا چاہئے۔ چوہدری صاحب نے مجھے پوچھا بھی کہ تم کیا سوچ رہے ہو لیکن مہمانوں کے ہجوم میں بات نہ ہو سکی اور پھر چند دنوں کے بعد ملک حاکمین خان کی رحلت کی خبر ملی۔ ملک صاحب تین دفعہ پنجاب اسمبلی اور ایک دفعہ سینیٹ کے رکن رہے۔ اُنہیں ایک ایسا اعزاز حاصل ہے جو آج بہت کم سیاستدانوں کو حاصل ہے۔ انہوں نے جس پارٹی سے اپنی سیاست شروع کی، مرتے دم تک اس پارٹی کو نہیں چھوڑا۔ ملک صاحب کو جنرل ضیاء الحق کے دور میں کوٹ لکھپت جیل کے اُس سیل میں رکھا گیا جہاں ذوالفقار علی بھٹو بھی قید تھے۔ ایک دن جیل حکام نے ملک صاحب کو جنرل ضیاء کا پیغام دیا کہ آپ کو رہائی بھی دی جائے گی اور وزارت والی گاڑی بھی، بس آپ کو یہ کہنا ہے کہ لیاقت باغ راولپنڈی میں فائرنگ بھٹو صاحب کے حکم پر کرائی گئی تھی۔ ملک صاحب نے انکار کر دیا۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ملک صاحب کے ایئر مارشل اصغر خان سے بہت قریبی تعلقات تھے۔ یہ تعلقات تحریک بحالیٔ جمہوریت (ایم آر ڈی) میں بنے تھے۔ 1990ء کے انتخابات سے قبل لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے ملک حاکمین سے رابطہ کیا اور انہیں پیسوں کے عوض پیپلز پارٹی چھوڑنے کا لالچ دیا۔ ملک صاحب نے یہ بات محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی بتائی اور اصغر خان کو بھی بتائی۔ 1990ء میں انہیں ہروا دیا گیا تو انہوں نے عزم کیا کہ وہ اس دھاندلی کو بے نقاب کریں گے۔ کچھ سال کے بعد حالات نے پلٹا کھایا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں تو ملک صاحب نے اُن کا اصغر خان سے رابطہ کرایا اور پھر اصغر خان نے سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی جو اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے لیکن عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ عملدرآمد ہو یا نہ ہو لیکن اصغر خان اور ملک حاکمین خان اپنا کام کر چکے۔ آج پاکستان میں کرپشن کے خلاف بہت شور مچایا جاتا ہے۔ ملک صاحب نے پنجاب کے وزیر ہائوسنگ کی حیثیت سے بہت سی کالونیاں بنائیں اور غریبوں کو پلاٹ دیئے اُن پر کبھی کرپشن کا الزام نہ لگا لیکن جب اُنہوں نے اسد درانی سے پیسے لے کر اپنی وفا داری بدلنے سے انکار کیا تو انہیں الیکشن ہروا دیا گیا۔ خود سوچئے کہ ملک حاکمین خان جیسے ایماندار لوگوں کو سیاست سے کس نے اور کیسے نکالا؟ آج ہماری سیاست میں جو خرابیاں ہیں اس کی تمام تر ذمہ داری خفیہ اداروں اور فوجی آمروں پر ڈال کر ہم سیاستدانوں، عدلیہ اور میڈیا کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ سب نے غلطیاں کیں اور ملک حاکمین خان جیسا صاف ستھرا سیاستدان ہم سب کی غلطیوں کا چلتا پھرتا ثبوت تھا، جس کے ساتھ فوجی آمروں نے ظلم کیا، عدلیہ نے انصاف نہ دیا اور جو تمام عمر ایک ایسے گناہ کی سزا بھگتتا رہا جو اُس نے کیا ہی نہ تھا لیکن ایک نیوز ایڈیٹر نے یہ گناہ اُن کے کھاتے میں ڈالا۔ ہم صحافیوں کو کسی کے بارے میں بولتے یا لکھتے ہوئے محتاط رہنا چاہئے۔
ملک حاکمین خان صاحب مجھے معاف کر دیجئے گا کہ یہ کالم آپ کی وفات کے بعد لکھا۔