ایران نے بھارت کو افغان طالبان سے بات چیت کے لئے اپنے دفاتر کی پیشکش کردی۔ ایران نے طالبان پر اپنا اثرورسوخ تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت کی اس سلسلے میں مدد کےلئے تیار ہے۔
بھارت سرکاری سطح پر طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل میں شریک نہیں تاہم ایران اور طالبان کی ماسکو اور تہران میں باضابطہ بات چیت ہو چکی ہے۔
بھارتی اخبار نے اپنے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایران نے افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کے لئے بھارت کو اپنے دفاتر دینے کی پیشکش کردی ہے ۔
ایران کا کہنا ہے کہ ان کا طالبان پر اثر ورسوخ ہے اور انہوں نے ہمیشہ اس اثر ورسوخ کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ،اگر بھارت چاہتا ہے کہ اسے استعمال کیا جائے تو انہیں خوشی ہوگی۔
طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے حالیہ مذاکرات میں بھارت نے سرکاری سطح پر حصہ نہیں لیا، بھارت کا کہنا ہے کہ افغانستان پر امن عمل اور مذاکرات افغان قیادت کو ہی کرنا ہیں۔
ایران نے حال ہی میں طالبان کے ساتھ باضابطہ سیکورٹی مذاکرات کیے ہیں۔ایک ذریعے نے وضاحت کی کہ بہت سے علاقے جو ایران کی سرحد سے ملحقہ ہیں اور طالبان کے کنٹرول میں ہیں تو تہران کےلئے ضروری ہے کہ ان سے بات چیت کی جائے، اگرچہ طالبان کے ساتھ چاہ بہار پر بات چیت نہیں ہوئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران آخری ملک تھا جس نے بات چیت کا آغاز کیا۔ ہم طالبان کے ساتھ رابطے میں تھے کیونکہ انہوں نے کچھ سرحدی علاقوں کا کنٹرول حاصل کررکھا تھا۔
ہم نے سرکاری سطح پر گزشتہ ہفتے تہران میں مذاکرات کیے۔ ہم نے ماسکومیں بھی طالبان سے مختصر بات کی لیکن باضابطہ مذاکرات تہران میں ہوئے۔ ہم نے چاہ بہار کے متعلق بات چیت افغانستان میں سلامتی اجلاس میں صرف صدر غنی سے کی ۔
عدم استحکام اور دوبارہ طالبان کے خطرے کو تسلیم کرتے ہوئے ذرائع نے کہا ہے کہ افغانستان پر طالبان کا غلبہ نہ صرف ایران اور بھارت کے لئے ایک خطرہ ہے بلکہ پاکستان کے وجود کے لئے بھی ایک مستقل خطرہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ہم نے اس سے متعلق بینظیر بھٹو کو بھی بتایا تھا جب وہ طالبان کی تخلیق پر خوش تھیں۔ ہم نے تسلسل کے ساتھ پاکستان کو آگاہ کیا کہ طالبان ہماری سلامتی کے لئے خطرہ ہیں لیکن ان کے لئے مستقل خطرہ ہے ۔ اس پر وہ اتفاق کرتے ہیں ۔