• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اپنے انتخابی منشور پر عمل پیرا ہے دوست ممالک سے ملنے والے پیکیجز سے ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ تو کسی حد تک حل ہوگیا ہے مگر ابھی تک حکومت آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کا فیصلہ نہیں کرپائی۔25 جولائی کے انتخابات کے نتیجہ میں بننے والی حکومت سے پاکستان کے عوام نے غیر معمولی توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ اپنے سو روزہ پروگرام کاا علان کرکے بھی وزیراعظم عمران خان سے عوام کی توقعات کو بڑھا دیا گیا تھا مگر کمزور معیشت عوام کے خواب تیز رفتاری سے پورے کرنے میں معاونت نہ بن سکی۔ ڈالر کی قیمت میںبڑے اضاضے نے مہنگائی میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ پچاس لاکھ مکانوں کی تعمیر اور ایک کروڑ افراد کی نوکری فراہم کرنے کے حوالے سے بھی عملی اقدامات کی سست روی حکومت کے حق میں نہیں گئی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں ہونے والی سزا کے خلاف اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے ، فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کیخلاف نیب بھی اپیل میں جاچکی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت پونے دو سو افراد کے خلاف جعلی بینکس اکائونٹس کا کیس برق رفتاری سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہونے کے باوجود عملاً کمزور نظر آرہی ہیں، دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے، تین بار وزیراعظم کے منصب پر فائز رہنے والے نواز شریف دو ریفرنسز میں سزا یافتہ ہیں جبکہ تین با ر وزیراعلیٰ کے منصب پر رہ کر پنجاب میں کھربوں کے منصوبے مکمل کرنیوالے میاں شہباز شریف بھی نیب کے اسیرہیں۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی خواہش کے برعکس اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے انہیں پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے اور وہ دو اجلاسوںکی صدارت بھی کرچکے ہیں مگر سینئر پارلیمنٹرین اورعوامی مسلم لیگ کے سربراہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد شہبازشریف کے چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بننے پر وزیراعظم عمران خان سے اختلاف رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس نامزدگی کے خلاف سپریم کورٹ جارہے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اور ان کے چھوٹے بھائی خواجہ سلمان رفیق بھی کرپشن کے الزام میں نیب کی تحویل میں ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت پاکستان کے عوام کی کوئی بڑی خدمت کرنے میں کامیاب نہ بھی ہوسکی تو سابق حکمرانوں کو جیلوں میں ڈالنے میں ضرور کامیاب رہے گی۔ نیب، اعلیٰ عدلیہ اور مقتدر حلقے اسی ایجنڈے پر متفق ہیں کہ قومی خزانے کو لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے والوں کا سختی سے محاسبہ کیا جائے۔جعلی بنکس اکائونٹس کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی نے آصف زرداری اور فریال تالپور کے اثاثے منجمد کرنے کی بھی سفارش کردی ہے ۔ آصف زرداری تو نواز شریف اور پرویز مشرف کے دور میں بھی کرپشن کے الزامات کے بعد پانچ برس تک صدر مملکت کے منصب پر فائز رہے ہیں پہلے صرف’’ مسٹرٹین پرسنٹ‘‘ کا الزام تھا مگر اب الزام بڑے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس کو نیشنل یونیورسٹی بنانے کے لئے اقدامات شروع ہوچکے ہیں بڑی بڑی عمارتوں کو حکمرانوں کی رہائش گاہ کی بجائے تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنا پی ٹی آئی کا انتخابی منشور تھا اس پر عملدرآمد سے یقینا عوام کا اعتماد بڑھے گا۔معاشی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سمندر پار مقیم پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی خواہش کے مطابق قومی خزانے میں ایک ایک ہزار ڈالر جمع کروانے پر تو تیار نہیں ہوئے مگر چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ کی کوششیں ضرور رنگ لے آئیں اور چین کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے معاشی بحران سے نکالنے میں عملی معاونت کردی ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ موجودہ حکومت کیلئے شاید پریشانی نہ پیدا کرسکے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں۔ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی اور حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی باتیں تو کی جارہی ہیں مگر اپوزیشن رہنما ایک دوسرے سے ملنے کے لئے آمادہ نظر نہیں آئے۔ حکومت کیخلاف اپوزیشن کو متحد کرنے کے لئے جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن دو بار پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری سے ملے مگر انہیں خواہش کے مطابق کامیابی نہ ملی اورمولانا فضل الرحمن کو یہ کہنا پڑاکہ کیا ہمیں اس وقت اکھٹے ہونا ہے جب سب جیل میں ہونگے۔ مقتدر قوتیں کرپشن کے ذریعے بیرون ملک جانے والے پیسے کو وطن واپس لانے کی خواہاں ہیں مگر نیب قوانین میں خامیوں کی وجہ سے ایسا ممکن بھی نہیں ہے۔ معاشی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے نتیجہ میں سٹاک مارکیٹ سے ساٹھ ارب ڈالر اُڑ گئے ہیں، سیاسی عدم استحکام مزید خراب ہوا تو معیشت کو کھڑا کرنا مشکل ہوجائے گا۔ سچ بولنے کا’’ این آر او‘‘ کرلیا جائے جس میں صرف سزا یافتہ نہیں سب شہری شامل ہوں اور اپنے ضمیر کے مطابق قومی خزانے میں حصہ ڈالیں ۔ چیئرمین نیب سمیت ہر شخص خود اپنا احتساب کرے اس احتساب کے نتیجہ میں شاید ہم ایک قوم بن سکیں۔ عملاً یہ صورتحال نظر آتی ہے کہ ہر شخص لوٹ مار میں لگا ہے ، دکاندار ہو، سرکاری و نیم سرکاری ملازم یا مزدور ہر شخص زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی کوشش میں ہے، حلال و حرام کی تمیز ختم ہوگئی ہے جسے بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سچ بولنے کا عزم کرلیں تو بڑی بڑی عدالتوں کی ضرورت ختم ہوجائے گی اور عدالتوں میں پیش ہونے والے مثبت کام کرنے میں مصروف ہوجائیں گے مگر شاید معاشی تجزیہ نگاروں کی یہ خواہش عملی شکل نہ اختیار کرسکے کہ سچ بولنا دراصل ’’ اعتراف جرم‘‘ کے زمرے میں آتا ہے جس کے لئے لوگ وکلا کو بڑی بڑی فیس دیتے ہیں۔ پانامہ پیپرز سے شروع ہونے والے مقدمے میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر اور جہانگیر ترین تو سزا پاچکے ہیں مگر بیرون ملک آف شور کمپنیاں رکھنے والے دیگر افراد کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین