• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ نے وہ گھسا پٹا قصہ تو سنا ہو گا جس میں فوجی مشن کے لئے ایک چھاتہ بردار کو دشمن کے علاقے میں اُتارنا تھا۔ جو صاحب اس مشن کے لئے نامزد ہوئے وہ کسی وجہ سے بر وقت دستیاب نہ ہو سکے تو قریب ہی موجود ایک منچلے نے اس مہم کا ذمہ اپنے سر لیا۔ مشن کی تفصیل میں بتایا گیا کہ ان کے جہاز سے کُودنے کے چار سیکنڈ بعد چھاتہ خود بخود کھل جائیگا اور نہ کھلنے کی صورت میں وہ خود رسی کو جھٹکے سے کھینچیں گے توایمرجنسی چھاتہ کھل جائیگا اور زمین پر اترنے کے بعد انہیں جیپ ملے گی جو ان کو منزل مقصود تک لے جائیگی۔ ہوا یوں کہ کُو دنے کا مرحلہ تو دھکے سے بخوبی سر انجام پایا البتہ معمول کے مطابق چھاتہ نہ کھلا اور ایمر جنسی چھاتہ کھولنے کے لئے جب رسی کو جھٹکا دیا تو بد قسمتی سے وہ بھی نہ کھلا۔ اس پر صاحبِ چھاتہ سبک رفتاری سے زمین کی طرف گامزن ہوتے ہوئے بڑبڑا کر بولے کہ ان کم بختوں نے زمیں پریقیناً گاڑی بھی نہیں بھیجی ہوگی ؟ یہ تھی ان کی حالتِ ایمرجنسی میں بلا کی خوش فہمی ۔اس کے بعد ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
قارئین کرام۔ آج ہمارا قومی تشخص بھی اس چھاتہ بردار شخص سے کچھ مختلف نہیں ۔ 9/11 کے واقعہ کے وقت چاہے ہم خود کُودے یا دھکیل دئیے گئے مگر ہم چھاتے کے بغیر ہی خوب کُو دے اوراب زمین کی طرف سبک ر فتاری سے گامزن ہیں ۔ اس سفر کو گیارہ سال بیت چکے اور ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ یہ جنگ ہماری ہے یا تمہاری؟ ۔ اس ”ہم تم اور تُو تُو، میں میں“کی جنگ نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ وطنِ عزیز کا کوئی ادارہ بھی زبوں حالی سے بچا ہوا نظر نہیں آتا۔ آ ،جا کر مسلح افواج پر نظر پڑتی ہے تو وہ بھی اپنے ہی دفاع کی جنگ میں نظر آتے ہیں۔بات
جنگوں کی چل پڑی ہے تو اگر ایک نظر 1965 ءء اور 1971 ءء پر ڈالی جائے تو مجموعی طور پر ان جنگوں میں ہمارے 12800 شہدا ء وطن پر قربان ہوئے اور اس موجودہ متنازعہ جنگ میں اب تک ہم تقریباً 40 ہزار کے لگ بھگ ایک دوسرے پر قربان ہو چکے ہیں۔ اس سلسلے میں ہماری معاشی بد حالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور معاشرتی لحاظ سے قوم ایک ہیجانی کیفیت کا شکار نظر آ رہی ہے۔ بے بسی، بے حسی اور تماشبینی کی ایک جھلک کراچی میں آگ لگی ہوئی بلڈنگ کی کھڑکی سے آدھے گھنٹے تک لٹکے ہوئے نوجوان کی آخر کار گر کر ہلاکت سے بخوبی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اگر ہم زندہ قوم ہوتے تو یقینا اس بچے کو بھی زندہ رکھ سکتے تھے لیکن ہم ایسا کیوں کرتے کیونکہ ا یک درجن لاشوں کا ہر روز گرناہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ ہماری کیابات ہے ؟ہم چتری کیلے تو خوب پسند کریں لیکن Banana Republic کہلوانا ناپسند ۔ ہر کام میں فیل ہونے کے باوجود اپنے آپ کو Failed State نہ سمجھیں اور نا سمجھی کی یہ حالت کہ صدام کو پھانسی کے پھندے پر لٹکتے ہوئے دیکھ کر بھی اسے کوئی اور سمجھیں اور اسامہ کو ایبٹ آباد میں مارے جانے کی خبر پر اُس کی وہاں موجودگی سے ہی انکار کردیں۔ واہ رے ہماری سمجھ!قارئین کرام۔ ہم بلاشبہ حالتِ جنگ میں ہیں مگر اس جنگ میں ہماری حالت یہ ہے کہ ہم روز بروز پستی ہی کی طرف رواں دواں ہیں۔ کہنے کو تو ہم ہر روز وہ نعرہ لگا تے ہیں جو ہم نے کرکٹ ورلڈ کپ کے وقت یہ گا کرلگایا تھا ”ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے ہاں جیتیں گے “ مگر ہار گئے۔ آپ ذرا سوچئے کہ اگر ہم پر کسی دشمن ملک سے جنگ مسلط ہوتی تو کیا ہم وہی کچھ کرتے جو آج کر رہے ہیں ؟یعنی اداروں پر تنقید، ان کو آپس میں لڑانا ،نئے صوبوں کا اتوار بازا ر سجانا ،لاقانونیت کا پرچاراورحکومتی اشتہارات کی بھر مار ۔یقیناً نہ کرتے ،تو پھر اب کیوں؟ کیونکہ ہمارے قائدین قومی جنگ کی بجائے اپنے اپنے مورچوں سے اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی جنگیں خوب لڑ رہے ہیں اور عوام کو کبھی کالا اور کبھی سبز باغ دکھا رہے ہیں۔ اس بارے میں سید ضمیر جعفری کا شعر پیش خدمت ہے:۔
# جو انسان نوع انسانی کا استحصال کرتے ہیں
نہایت ریشمی الفاظ استعمال کرتے ہیں
قارئین کرام۔ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ہم جنگی ایمرجنسی کی حالت میں ہیں تو سہی مگر عمل سے ایمرجنسی کی رسی کو کھینچنے سے عاری ہیں غالباً ہم ا س خوش فہمی میں ہیں کہ ہماری Writقائم ہے ! ان حالات و واقعات کو مد نظر رکھ کر سوچیں اور بتائیں کہ اور ایمرجنسی کس کو کہتے ہیں؟ ہم اب اس آخری اُمید سے ہیں کہ شائد الیکشن ہی ہمار ا مسیحاہوں گے ۔گو کہ ان کے انعقاد، حلقہ بندیوں، ان کی شفافیت اور ووٹرز لسٹ کی درستگی پر بھی شدید شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ الیکشنز وقت پر ہو جائیں لیکن کیا آپ یہ تو قع رکھتے ہیں کہ ان کے نتیجے میں آنے والی حکومت ہمیں اس حالتِ جنگ اور زبوں حالی سے نکال پائیگی؟ کیا ہم اپنی گروہی سیاست میں جکڑ ے ہوئے نظام کی موجودگی میں کوئی بامقصد تبدیلی لاپائیں گے؟ مجھے تو شک ہے! میری ناقص رائے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی ذاتی رنجشوں کو بھلا کرپارٹی،ذات اور برادری کی سیاست سے بالاتر ہو کر ایماندار اور محب وطن قائدین کو منتخب کریں جو حقیقی معنوں میں اس ملک میں خاموش انقلاب لا کر اس قوم کی تقدیر بدل ڈالیں ۔ بقول شاعر:۔
#ضمیر جعفری صاحب اٹھو کچھ کام فرماؤ
فقط رونے سے،میری جان!دشواری نہیں جاتی
تازہ ترین