• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”محترمہ بینظیربھٹو شہید پاکستان کا خوشنما چہرہ تھیں۔ پاکستان ان کی زندگی تھا اور انہوں نے پاکستان ہی کی خاطر اپنی جان قربان کردی۔ بی بی کی سیاسی عظمت ،شخصی وقار اور عالمی مرتبہ کی صدائے بازگشت تاقیامت گونجے گی اور ان کے افکار و نظریات کی خوشبو آنے والے وقتوں میں بھی دنیا بھر کے جمہوریت پسند عوام کے دلوں کو مسخر اور معطر کرتی رہے گی۔“
”بی بی شہید غریب عوام کے لئے امید کی روشنی تھیں۔ عوام کے خوبصورت خوابوں کی تعبیر تھیں جو انہوں نے اپنے حقوق اور انسانی وقار کے لئے آنکھوں میں سجا رکھے تھے۔ وہ اس یقین سے سرشار تھے کہ وہی اس ملک کے اصل وارث ہیں اور بی بی شہید ان غربت زدہ عوام کے مستقبل کی علامت ہیں۔ بی بی کی شہادت سے بہت کچھ فنا ہوگیا لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی شکل میں بیش بہا ورثہ محفوظ ہے۔“
میں نے یہ خراجِ عقیدت محترمہ بینظیربھٹو شہیدکی پہلی برسی کے موقع پر ایک مضمون میں پیش کیا تھا جو انتہائی درد میں ڈوبے جذبات و احساسات کا اظہار تھا۔ آج ان کی شہادت کو پانچ برس ہو رہے ہیں اور عوام کے دلوں میں ان کی یاد اور محبت کی شمع اسی طرح فروزاں ہے۔ یہ اتفاق بھی عجیب وغریب ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت بھی اپنے پانچ سال پورے کررہی ہے ۔بی بی کی شہادت اور حکومت میں پانچ سالہ مماثلت کے باوجود یہ حقیقت پریشان کن ہے کہ بی بی کے قتل کا معمہ ابھی تک سوالیہ نشان ہے اور بی بی کے قاتل‘ جو دراصل عوام کی امیدوں اور خوابوں کے بھی قاتل ہیں‘ کو ابھی تک قانون کی گرفت میں نہیں لایا جاسکا اور عوام اس وقت تک غم و غصہ کی کیفیت سے آزاد نہیں ہوں گے جب تک بی بی کے حقیقی قاتل انصاف کے کٹہرے میں نہیں آئیں گے۔
محترمہ بینظیربھٹو شہید کے ساتھ عوام کی محبت کا لازوال رشتہ اس وقت سے قائم ہے جب انہوں نے 1977ء میں جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے خلاف جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا اور اپنے والد قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کی جھوٹے مقدمہ قتل میں گرفتاری کے خلاف تاریخی جدوجہد کے لئے پارٹی کارکنوں کو متحرک کیا۔ پھرقیدوبند اور جیل کی صعوبتیں بڑی بہادری سے برداشت کیں۔ اس مقدمہ کے خلاف انہوں نے عالمی سطح پر اپنی آواز بلند کی اور دنیا میں اس جھوٹے مقدمہ کا پول کھولا۔ فوجی ڈکٹیٹر نے انہیں جس طرح جمہوریت کیلئے آواز بلند کرنے کے جرم میں قید‘ نظربندی کا نشانہ بنایا اور ذہنی تشدد کیا۔ اس سے بینظیربھٹو کی عالمی سطح پر سیاسی حیثیت کا نقش ابھرا اور ساڑھے پانچ سال قیدونظربندی کے بعد11جنوری 1984ء کو علاج کی غرض سے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تو یہ ان کی اسیری کے خاتمہ اور آزادی کے طلوع کا دن تھا۔ ساڑھے پانچ سال کی قید کے بعد انہوں نے آزاد فضا میں سانس لیا۔ وہ 13جنوری کو لندن پہنچیں تو ہیتھرو ایئرپورٹ پر پاکستان پیپلزپارٹی کے اہم سینئر رہنماؤں اور کارکنوں نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ یہ اس حقیقت کا اظہار تھا کہ انہیں ایک جرأت مند لیڈر کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اس موقع پر برٹش میڈیا اور خصوصاً عالمی ذرائع ابلاغ میں ان کی آمد کو جو نمایاں جگہ ملی وہ جنرل ضیاء کے خلاف ان کی طویل جدوجہد کا شاندار اعتراف تھا۔بی بی شہیدنے یہاں اپنے کان کا آپریشن کرانے کے بعد سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں اور یورپ وانگلینڈ اور دوسرے ممالک میں پارٹی کی تنظیم سازی کی اور کارکنوں کو فوجی آمر کے خلاف متحرک کیا۔مزید برآں عالمی سیاستدانوں اور ذرائع ابلاغ میں بھی جنرل ضیاء کے آمرانہ مظالم سے آگاہ کیا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں پارٹی کارکنوں پر ہونے والے مظالم سے انسانی حقوق کے اداروں کو مسلسل آگاہ رکھا اور جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف سیاسی محاذ کوئی نئی طاقت دی۔
محترمہ بینظیربھٹو کی ایام جلاوطنی میں جمہوری جدوجہد کا یہ پہلو بطور خاص قابل ذکر ہے کہ دو سالہ جلاوطنی کے دوران ذاتی زندگی میں کافی مشکلات کاسامنا کیا۔ وہ خود اپنی شاپنگ کرتی تھیں‘ خود اپنا کھانا بناتی تھیں، گھریلو کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں اورخودانحصاری ان کی زندگی کا ایک روشن مثبت پہلو تھا۔وہ سکیورٹی کی پرواہ کئے بغیر کارکنوں کی میٹنگ کیلئے اپنے فلیٹ سے بذریعہ انڈر گراؤنڈ ریل سفر کرتیں۔ یہ وہ خصوصیات تھیں جن کی بدولت انہوں نے عام آدمی کے سا تھ رشتہ قائم کیااور زندگی کی آخری سانس تک عوام کے ساتھ ان کا یہ انمٹ تعلق قائم ودائم رہا۔
بی بی کی عظیم شہادت کی بدولت پاکستان پیپلزپارٹی اقتدار کے پانچ سال مکمل کررہی ہے اور اس کا کریڈٹ بجا طور پر شریک چیئرپرسن اور صدرپاکستان جناب آصف علی زرداری کو جاتا ہے جنہوں نے بی بی کی مفاہمت پالیسی پر عمل پیرا ہوکر ان کے اس خواب کی تعبیر کو عملی شکل دی۔
تازہ ترین