برسوں قبل آئی بی ایم (IBM) کے ایک سینئر عہدیدار نے اپنے طور پر انقلابی فیصلہ کیا جو بدقسمتی سے غلط ثابت ہوا اور کمپنی کو تیس لاکھ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا یہ کوئی راجہ رینٹل یا اس قبیل کا کوئی پاکستانی حکمران نہ تھا کہ اربوں ڈالر کا نقصان کر کے بھی ضمیر کی خلش کے بغیر اپنے منصب سے چمٹا رہتا یا ترقی درجات کا طلبگار ہوتا، استعفیٰ دیا اور سامان سمیٹنے میں لگ گیا۔ آئی بی ایم کا چیف ایگزیکٹو تھامس واٹسن اس کے کمرے میں داخل ہوا، سامان سمیٹنے اور کمپنی چھوڑنے سے منع کیا اور کہا ”یوں سمجھو میں نے تیس لاکھ ڈالر تمہاری ٹریننگ پر خرچ کر دیئے۔ تاکہ تم غلط اور صحیح فیصلے کا فرق جان سکو۔“
پاکستان میں قوم نے ملک کے تمام وسائل اور اپنی زندگی کے پینسٹھ قیمتی سال اپنی سیاسی، فوجی، انتظامی قیادت کی ٹریننگ پر صرف کر دیئے بار بار اپنی غلطیوں کو سدھارنے اور ناکامیوں کو کامیابی میں بدلنے کا موقع فراہم کیا اور درست اور غلط فیصلے میں فرق معلوم کرنے کی ترغیب دی مگر اتنی غبی، پست ذہن، پست فکر اور ڈھیٹ واقع ہوئی ہے کہ ان میں سے کسی نے آج تک نہ تو اپنی کوئی غلطی تسلیم کی، نہ کسی ناکامی سے سبق سیکھا اور نہ اپنی کوئی بری عادت تبدیل کرنے پر آمادہ ہوئی ۔
تباہی و بربادی، لوٹ مار، نالائقی، نااہلی، اقربا پروری اور بدنظمی کے جس راستے پر چلنا شروع کیا اسی پر اب تک گامزن ہے۔ قوت فیصلہ سے محروم، اعلیٰ مقصد سے تہی دامن، نئے تجربے سے خوفزدہ اور اپنا وقت برباد کرنے کی بد عادت میں مبتلا یہ قیادت خود قومی وسائل اور ادارے برباد کرنے کے سوا کچھ کرتی نہیں اور کوئی دوسرا کچھ کرنے کا بیڑا اٹھائے تو یہ الزام تراشی، کردار کشی، گھٹیا پروپیگنڈے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے پر اتر آتی ہے۔ مبادا غربت و افلاس، بیروزگاری، بدامنی اور بدانتظامی و لاقانونیت کے ستائے عوام اپنی قسمت سنوارنے کے لئے کوئی نیا تجربہ کرنے پر تل جائیں۔ کیونکہ روز ویلٹ فرینکلن کے بقول ”کامیاب لوگ کچھ نہ کرنے سے کچھ نہ کچھ کرنا بہتر خیال کرتے ہیں، یہ کامن سینس کی بات ہے کہ کچھ نہ کچھ سوچ کر اس پر عمل کیا جائے اور ناکامی کا خوف سوار نہ ہونے دیا جائے“
بلامبالغہ ملک MARE OR BREAKE کے دوراہے پر کھڑا ہے اور سرطان کا مرض میجر سرجری کے بغیر ختم نہیں ہو سکتا مگر ہماری گھسی پٹی، آئین نو سے ڈرنے، طرز کہن پہ اڑنے والی قیادت کا اصرار ہے کہ ہم اصلاح احوال کے لئے نہ کوئی فیصلہ، نیا تجربہ خود کریں گے نہ کسی اور کو کرنے دیں گے موزہ ساٹھ روپے کا ڈالر سو روپے تک پہنچے یا ڈیڑھ سو روپے تک چلا جائے، گیس اور بجلی کی بندش سے ٹیکسٹائل شعبے کے پانچ لاکھ کارکن بیروزگار ہوں اور ان کے زیر کفالت بیس پچیس لاکھ افراد بھوکے مریں یا مزید صنعتیں بند ہوں اور بیروزگاروں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی تجاوز کر جائے ہم اس گھٹیا سیاسی، معاشی، انتخابی اور سماجی ڈھانچے کو جوں کا توں چلاتے رہیں گے اس میں ہمارے وارے نیارے ہیں تاآکہ نوبت 1970 کی طرح خدانخواستہ قومی شکست و ریخت تک پہنچ جائے۔ ہماری بلا سے۔
تبدیلی کا ہر نعرہ انہیں ناپسند اور نعرہ لگانے والا خواہ عمران خان ہو یا علامہ طاہر القادری الزام تراشی، کردار کشی، مکروہ پروپیگنڈے، جھوٹ کے طومار اور گالی گلوچ کی بھرمار کا مستحق ہے حالانکہ عمران خان کے دفتر عمل میں شوکت خانم ہسپتال، نمل یونیورسٹی اور ورلڈ کپ ہے علامہ طاہر القادری منہاج یونیورسٹی، عالمی سطح کے تعلیمی، مذہبی، سماجی رفاہی نیٹ ورک کے ذریعے اپنی انتظامی اور تنظیمی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ مگر ان کے سیاسی مخالفین کا کل اثاثہ قومی اداروں کی تباہی، ٹیکس چوری، قرضہ خوری، قومی وسائل کی لوٹ مار، کسی میرٹ اور اصول کے بغیر اپنے خوشامدیوں کو سرکاری عہدوں پر تعینات کرنے، گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں دینے، عوام کو بے وقوف بنانے اور ہر بار اقتدار سنبھال کر مارشل لاء کی راہ ہموار کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
دوسروں کے عیب اچھال کر اپنے قومی گناہوں پر پردہ ڈالنے والے یہ گرگے علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان بدتمیزی برپا کرتے اور اسے اسلام آباد پر لشکر کشی قرار دیتے وقت بالکل بھول گئے کہ یہ گناہ 1993 میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور 2009 میں میاں نواز شریف کر چکے ہیں۔ ماضی کے دونوں لانگ مارچ اس لئے جائز کہ سیاسی فوائدپیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے سمیٹے اب قوم کو حقوق ملنے اور ڈکٹروں، انجینئروں، دانشوروں، نوجوانوں، خواتین کو انتخابی عمل میں شرکت کے مواقع حاصل ہونے کی امید ہے اس لئے خلاف آئین۔ سبحان اللہ۔
قوم کو غرض تبدیلی سے ہے عمران خان کے ذریعے آئے یا علامہ طاہر القادری کوکدو کاوش سے، اگر سٹیٹس کو کے حامی اتنے ہی باشعور، محب وطن اور خادم قوم و ملک ہیں تو خود ہی مل بیٹھ کر اجارہ دارانہ انتخابی نظام تبدیل کریں عام آدمی کو اقتدار میں شرکت کا موقع فراہم کریں اصلاحات کا بل منظور کر کے 10 جنوری سے قبل اسمبلیاں توڑ کر عام انتخابات کا اعلان کر دیں تاکہ لانگ مارچ کی نوبت ہی نہ آئے جس سے یہ سارے خوفزدہ ہیں مگر یہ شائد ان کے مفادات اور جبلت کے خلاف ہے اس لئے چیخ چلا رہے ہیں تبدیلی پر آمادہ ہیں۔
موجودہ مکروہ سیاسی، سماجی و معاشی ڈھانچہ اور اجارہ دارانہ انتخابی نظام مقدس بچھڑا نہیں کہ یہ قوم اپنا مستقبل داؤ پر لگا کر اس کی پوجا کرتی رہے اور معاشرے کے متکبرین، مترضین موج میلہ جاری رکھیں۔ اس قوم کی اجتماعی دانش آئی بی ایم کے سی ای او کی سطح سے پست بھی نہیں کہ یہ کسی نئے تجربے سے ڈرتی رہے اور قوت فیصلہ سے مالا مال، بہترین تنظیمی صلاحیتوں، عوامی خدمت کے ریکارڈ کی حامل نئی قیادت کو کسی خوشگوار تجربے کا موقع فراہم کرنے کے بجائے نااہل، نالائق، پست ذہن، پست فکر جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور مافیا دانوں کے ہاتھ میں اپنی قسمت کی باگ دوڑ پھر تھما دے۔ محض اس لئے کہ ان کے پاس حرام کی دولت ہے، مقامی استحصالی طبقات کی حمائت، غنڈوں کی فوج ظفر موج اور عالمی قوتوں کی سند خلافت نہیں بابا نہیں۔ ہم باز آئے ”حماقت“ سے اٹھا لو پاندان اپنا۔