• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی، ٹھٹھہ اور بدین کے سمندر برد ہونے کی پیشگوئیاں

حکومت سندھ کی طرف سے کئی بار یہ رپورٹ شائع کی گئی ہے کہ دریائے سندھ کا میٹھا پانی سمندر میں نہ جانے کی وجہ سے اب تک سندھ کے دو اضلاع ٹھٹھہ اور بدین کی لاکھوں ایکڑ زمین سمندر برد ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف لاکھوں ایکڑ زمین پر فصل نہیں بوئی جاتی بلکہ ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں‘ یہ رپورٹ میں بھی تین چار بار کالموں میں شامل کر چکا ہوں۔

اربابِ اختیار سے یہ استدعا بھی کر چکا ہوں کہ آپ انڈس ڈیلٹا اور ان اضلاع کی سمندر برد ہونے والی لاکھوں ایکڑ زمین اور ہزاروں لوگوں کے بے گھر ہونے کے بارے میں حقائق کا بنفس نفیس جائزہ لینے کے لئے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان علاقوں کامعائنہ کریں اور کچھ علاقوں میں اتر کر وہاں کے متاثرہ لوگوں سے ذاتی طور پر حال احوال معلوم کریں، مگر پتا نہیں کیوں قابلِ احترام حکام اس استدعا پر ابھی تک توجہ نہیں دے سکے ۔ایسا لگتا ہے کہ ان ساری قابل احترام ہستیوں کی پوری دلچسپی دریائے سندھ کے اوپر والے حصے میں ڈیم بناکر وہاں پانی کا ذخیرہ کرنے میں ہے۔ اس مرحلے پر میں اس بات کا بھی ذکر کرتا چلوں کہ کئی بین الاقوامی ماحولیاتی ادارے اس خطرے کا بھی اظہار کر چکے ہیں کہ اگر دریائے سندھ کا پانی سمندر میں جانے سے روکا جاتا رہا اور ایسے ہی کچھ اور منفی نوعیت کے اقدامات کئے جاتے رہے تو شاید 2050ء تک سارا کراچی شہر سمندر کے پیٹ میں ہو گا اور اس کے نتیجے میں تقریباً دس ملین پناہ گزین کسی سہارے کے منتظر ہوں گے۔ بہرحال یہ تو ہوئے سندھ کے متاثرہ لوگوں‘ سندھ حکومت اور کچھ بین الاقوامی اداروں کے اندیشے اور پیشگوئیاں۔ لیکن ہمارے ملک کے حاکم اور دیگر اہم شخصیات ان اندیشوں اور پیشگوئیوں کو کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں مگر آج میں اس کالم میں سینیٹ کی سائنس و ٹیکنالوجی کے بارے میں اسٹینڈنگ کمیٹی کی ایک رپورٹ پیش کرر ہا ہوں جو کمیٹی کے اس وقت کے چیئرمین سینیٹر ساجد میر نے 11مارچ 2015ء کو وزیراعظم محمد نواز شریف کو لکھے گئے ایک آفیشل مراسلے کے ذریعے پیش کی۔ اس مرحلے پر میں مراسلے کا ایک اہم پیرا گراف پیش کر رہا ہوں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ:میں یہ لیٹر آپ کو لکھ کر ایک اہم معاملہ آپ کے علم میں لا رہا ہوں جس کا تقاضا ہے کہ آپ اس پر توجہ دیں‘ اس معاملے کو فوری اور صحیح طرح حل کرنے کی حمایت کریں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے بارے میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے اپنے اجلاس میں سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں Sea Intrusionکے خطرناک اثرات کا نوٹس لیا، جس کے نتیجے میں آئندہ 30سالوں میں بدین اور ٹھٹھہ کے اضلاع سمندر میں ڈوب سکتے ہیں جبکہ ان اضلاع سے پہلے کراچی سمندر برد ہو سکتا ہے۔

میں بڑے ادب سے پاکستان کے چیف جسٹس اور پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار حکمران سے استدعا کروں گا کہ خدارا! اور نہیں تو سینیٹ کی سائنس و ٹیکنالوجی کمیٹی کی سفارشات میں کئے گئے ان انتہائی خطرناک اندیشوں کا تو ضرور نوٹس لیں۔ کیا کراچی‘ بدین اور ٹھٹھہ کے علاقے سمندر کے حوالے کرنا پاکستان کے مفاد میں ہو گا؟ اب میں اس اسٹینڈنگ کمیٹی کی سفارشات پیش کر رہا ہوں جو اس لیٹر کے ذریعے اس وقت کے وزیراعظم کو ارسال کی گئیں۔

یہ سفارشات ہیں

:(1)پانی اور بجلی کی وفاقی وزارت نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنو گرافی (این آئی او) اور دیگر متعلقہ اداروں کے تعاون سے سندھ اور بلوچستان کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹیز اور ان دونوں صوبوں کے ریونیو بورڈز کی وساطت سے جلد از جلد سندھ اور بلوچستان میں Sea Intrusionکا جائزہ لیں۔

(2) Sea Intrusionکے نتیجے میں ہونے والی امکانی تباہی کو روکنے اور اس کی شدت کو کم کرنے کے لئے ایم ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو منسلک کیا جائے۔

(3)کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی کہ پاکستان میں Coastal Erosionکے بارے میں نیشنل اسیسمنٹ رپورٹ جو ڈبلیو ڈبلیو ایف‘ سی آئی یو این‘ یو این ای پی وغیرہ کی طرف سے تیار کی گئی ہے، پر این آئی او اور دیگر متعلقہ اداروں سے مل کر غور کیا جائے اور اس کا جائزہ لیا جائے۔

(4)1991ء میں پاکستان کے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے بارے میں کئے گئے معاہدے کا مقصد یہ تھا کہ دریائے سندھ کے پانی کے بہائو کو بڑھایا جائے‘ اس معاہدے پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے تاکہ بیراجوں اور ڈیموں میں جمع ہونے والی ریت کا صفایا ترجیحی بنیادوں پر ہو سکے۔

(5)وفاقی حکومت ذوالفقار آباد کے مقام پر سمندر میں ایک wearتعمیر کرنے کے سلسلے میں پروجیکٹ پر آنے والے اخراجات کا 50فیصد حکومت سندھ کو فراہم کرے۔ (6)کمیٹی نے سفارش کی کہ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں Sea Intrusion کے ایشو پر ترجیحی بنیادوں پر مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کی موجودگی میں غور کیا جائے اور منصوبہ بندی کمیشن کو بھی اس سلسلے میں شامل کیا جائے‘ کیا سندھ اور بلوچستان کے Sea Intrusionسے متاثر ہونیوالے علاقے پاکستان کا حصہ نہیں ہیں؟ کیا ان سارے علاقوں کو سمندر کے حوالے کر دیا جائے اور ڈیم بنانے میں مشغول رہیں۔ بتایا جائے کہ گزشتہ حکومت نے ان سفارشات پر کس حد تک عمل کیا؟ مجھے امید ہے کہ موجودہ حکومت اور ہماری اعلیٰ عدلیہ ان سفارشات کے حوالے سے اس ایشو کا نوٹس لیں گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین