• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیجنگ : لوسی ہورنبی

واشنگٹن: جیمز پولی

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے سب سے زیادہ اہم جغرافیائی سیاسی کشمکش ،دنیا کی دو بڑی معشیتوں کے درمیان تجارتی جنگ کو حل کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں امریکا اور چین کی مذاکراتی ٹیمیں منگل کو بات چیت کے دوسرے روز کیلئے بیجنگ میں ملاقات کررہی ہیں۔

ورکنگ سطح پر مذاکرات گزشتہ ماہ بیونس آئرس میں جی 20 سربراہی اجلاس میں چینی صدر شی جنگ پنگ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک ملاقات کی پیروی کرتے ہیں۔ جہاں انہوں نے 90 دن کیلئے جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ چین کی جبرا ٹیکنالوجی کی منتقلی اور امریکی کمپنیوں کا مقابلہ کرنے والی برآمدات سمیت چینی پالیسی کی سالہاسال کی پالیسی کو ختم کرنے کی کوششوں میں بیان بازی کا استعمال کرکے جارحانہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ چینی صدر شی جنگ پنگ صورت حال کا دفاع کررہے ہیں جس نے چین کو غیر معمولی اقتصادی ترقی دی اور متعدد امریکی کاروباری اداروں کو بھی بہتر بنایا ہے۔

دونوں صدور اپنے اپنے ملک میں تیزی سے کمزور ہورہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ پھر سے تازہ دم ڈیموکریٹک پارٹی سے نبردآزما ہیں جبکہ شی جنگ پنگ سست رفتار معاشی ترقی سے زور آزمائی کررہے ہیں۔ دونوں کو غیر مستحکم مارکیٹوں کا سامنا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان قوتوں نے دونوں جانبین کو ایک معاہدہ کرنے کے قریب لے کر آئیں لیکن دونوں کے مابین خلا ابھی بھی وسیع ہے۔

جیسا کہ دونوں فریقین آمنے سامنے ہیں، یہاں ان کی کچھ کمزوریاں اور طاقتیں ہیں۔

معیشت

ٹرمپ کو فوائد

امریکی ٹیرف کا اثر واضح ہے،سرکاری اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ چین کی معیشت اس سال کی پہلی تین سہہ ماہیوں میں 6.7 فیصد بڑھ گئی اور امریکا کو اس تک پہنچنے میں طویل عرصہ لگے گا۔ تاہم بیجنگ میں کسی تلاش کرنا مشکل ہے جسے ان اعدادوشمار پر یقین ہو،دیگر اعداودوشمار ترقی کی رفتار میں تیزی سے سست روی ظاہر کرتے ہیں۔ چین کی طرح سے کہیں بھی حقیقی اقتصادی سرگرمی کا ایک بڑا حصہ برآمدات ہوگا اور اس پر شکوک شبہات پائے جاتے ہیں کہ آیا بیجنگ کا قرض کے ذریعے محرک کوششوں کے روایتی ردعمل اس دور میں مؤثر ثابت ہوگا۔

امریکا گلفام لگ رہا ہے۔ چین کے جوابی ٹیرف سے متاثر ہونے والے شعبوں میں واضح تنزلی اور مسائل تنبیہی علامات ہیں۔ لیکن دسمبر میں امریکا روزگار کی پیداوار توقعات سے کہیں زیادہ ہونے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے عقائد کو مستحکم کیا کہ ان کی تجارتی پالیسیاں امریکی معیشت کو نقصان نہیں پہنچارہی ہیں اور بلکہ ہوسکتا ہے مددگار ہوں۔

سیاست

شی جنگ پنگ کو فوائد

چونکہ شی جنگ پنگ کو سیاسی دباؤ کا سامنا نہیں کیونکہ چین میں انتخابات اتنے آسان نہیں۔ عوامی طرز فکر اور بالخصوص اشرافیہ خاندانوں کی رائے ابھی بھی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔حالات سے آگاہ افراد کے مطابق شی جنگ پنگ کے اتحادیوں میں سے بعض تجارتی جنگ سے ان کے ذاتی مفادات کے خطرے سے پریشان ہیں۔ ملک میں سیاسی سختی کے دوران آنے والے امریکا کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے عوام کا بڑا حصہ مشکلات کا شکار ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو بہت زیادہ فوری دباؤ کا سامنا ہے۔انہوں نے 2020 کیلئے مشکل صدارتی انتخابی مہم کا آغاز کم منظوری کی شرح کے ساتھ کیا اور گزشتہ برس نومبر کے وسط مدتی انتخابات میں شکست فاش نے ایوان نمائندگان کا کنٹرول ڈیموکریٹس کو دے دیا۔ چین کے ساتھ سختی ان کی انتخابی مہم کا موضوع تھا، لیکن وہ مستقل شی جنگ پنگ کے ساتھ معاہدے کا وعدہ کررہے ہیں۔جو چین کو مذاکرات کے لئے سہلوت فراہم کرتا ہے۔ بیجنگ کو امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ معاہدہ قبول کرلیں گے جو انہیں فتح کا دعویٰ کرنے کی اجازت دے۔

مارکیٹس

شی جنگ پنگ کے مفادات

دونوں ممالک کی اسٹاک مارکیٹس کی صورتحال خراب ہے۔ شنگھائی کا مجموعی انڈیکس 2014 میں آخری بار دیکھے گئی سطح کے برابر ہے، جبکہ ڈاؤ جونز صنعتی اوسط کو ظالمانہ اصلاحات کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں صدور کیلئے ان کی پالیسیوں پر فنانشل مارکیٹس سے اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی ریفنڈم دکھائی دیتی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اسٹاک مارکیٹ کے ساتھ زیراثر ہیں۔ اکتوبر میں پہلی بار بڑی فروخت نے انہیں بیونس ٓئرس میں عشائیے کیلے فون پر مجبور کیا جس نے اس ہفتے بات چیت کی قیادت کی۔ اس کے علاوہ مزید کمی نے انہیں دفاعی پوزشین پر رکھ سکتا ہے۔

شی جنگ پنگ کو مارکسی نظریے میں جذب ہیں،ان کا مارکیٹ کی نقل و حرکت کے سات زیادہ پیچیدہ تعلق ہے۔ جب انہوں نے پہلی بار عہدہ سنبھالا ، انہوں نے مارکیٹ کی تیزی کے بارے میں بات کی۔ بعد کی تباہی نے مالیاتی ٹیکنوکریٹس کو رسوا کیا، جنہوں نے شاید ان کی سرکاری کنٹرول کی پالیسیوں کی مخالفت کی ہے۔ گزشتہ کئی سال میں رفتار میں کمی کے عمل اور شیڈو بینکنگ کی تباہی نے متعدد نجی کمپنیوں کو ختم کردیا، چین کو ریاستی سازاوسامان پر مکمل طور پر انحصار کیلئے چھوڑ دیا۔

تاریخ

نقصان

جیسا کہ امریکا اور چین کو بہت سے محاذوں کا سامنا ہے،دونوں فریق مختلف قیاسات سے مشورہ کرتے ہیں یہ دکھانے کیلئے کہ وہ تاریخ کی درست جانب ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ واپس ریگن کے دور کو توجہ دے رہی ہے۔ امریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لتھائیزر 1980 میں جاپان کے عارضی کامیابی کے دور کے ساتھ مذاکرات کے تجربہ کار اور ٹیرف کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ دیگر کو سویت یونین کا خاتمہ یاد ہے، جو سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کے فوجی اخراجات کے اضافے کے سامنے اپنی اقتصادی منصوبہ بندی کو برقرار نہیں رکھ سکا۔

شی جنگ پنگ کا یہ عزم ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کو سویت یونین جیسی قسمت کا شکار ہو۔ وہ دوسری عالمی جنگ کے حوالے سے اپنی خاندانی میراث کی سہولت لے سکتے ہیں، جب ماؤ زیڈونگ کے کمیونسٹ کمزور نظر آئے، ان کے والد شی ژونگ شن نے ان کے دارالحکومت یانان سے ایک دوبارہ منظم تنظیم کو مربوط کیا۔ جیسا کہ وہ یانان مکمل طور پر سنبھالنے کیلئے نمایاں ہوئے،انہوں نے بڑے پیمانے پر مقابلے کا حملہ شروع کیا اور خانہ جنگی جیت لی۔ چینیوں کا تذویراتی کمزوریوں کا ستعمال جسے امریکا کو نظر انداز کرنا اچھا نہیں ہوگا۔ 

تازہ ترین