بات چیت:مطلوب حسین
تیکھے نین نقوش کی مالک، معروف اداکارہ، ماڈل اورٹی وی میزبان، انعم تنویر کا شمار اُن اداکاراؤں میں ہوتا ہے، جو کم وقت میں اپنی صلاحیتوںکا لوہا منواکر ناظرین کے دِلوں پر راج کرنے لگتی ہیں۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز ایک انگریزی اخبار سے بطور لکھاری کیا۔ پھرباقاعدہ طور پر ایک ایڈورٹائزنگ ایجینسی میں ملازمت اختیار کرلی۔2012ء میں پی ٹی وی کے ایک شو میں معاون میزبان کے فرائض انجام دئیے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کئی مشہور ڈراموں میں مختلف نوعیت کے کردار ادا کرکے اپنی الگ پہچان بنالی۔ان کا پہلا ڈراما’’میرے درد کو جو زباں ملے‘‘ تھا، جب کہ دیگر ڈراموں میں کہی ان کہی، دِل برباد، جورو کا غلام، بھابی، میرے ہرجائی، پچھتاوا، شہرِناز، وعدہ اور لشکارا وغیرہ شامل ہیں ۔تاہم، جیو چینل کے مقبول ڈرامے ’’نورِ زندگی ‘‘نے ان کے قدم شہرت کی وادی میں قدرے مضبوطی سے جمائے۔ اسی دوران ماڈلنگ کی جانب رجحان ہوا،تو کئی اشتہارات میں بھی جلوہ گر ہوئیں۔
گزشتہ دِنوں ہم نے ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے مقبول سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے ان سے خصوصی بات چیت کی، جس کا احوال قارئین کی نذرہے۔
س:خاندان، جائے پیدایش، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟
ج:میرا تعلق ایک ادبی گھرانے سے ہے۔ میرے پر دادا اپنے زمانے کے معروف شاعر تھے، جب کہ دادا مصوّر ہیں،جو کسی دَور میں بہت خُوب صُورت پینٹنگز بناتے تھے،اب ضعیف ہوچُکے ہیں، تو مصوّری نہیں کرتے، البتہ ان کی بنائی پینٹنگز آج بھی میرے کمرے کی زینت ہیں۔وہ اکثر مجھے اپنے والد یعنی پردادا کی شاعری سُناتے ہیں اور مَیں سَردھنتی رہ جاتی ہوں۔ والدصاحب آرکیٹیکچر ہیں اور ساتھ ہی پکوان کا بزنس بھی کررہے ہیں۔ مَیں 8فروری کو روشنیوں کے شہر ،کراچی میں پیدا ہوئی۔چوں کہ والدین کی پہلی اولاد تھی، تو آنکھ کا تارا ضرور بنی،لیکن وہ ایک کہاوت ہے ناں کہ ’’ کھلاؤ سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نگاہ سے‘‘تو والدین نےتربیت کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں بخشی۔ رہی بات تعلیم کی، تومجھے پڑھنے لکھنے کا کچھ خاص شوق نہیں تھا،اسی لیے آٹھویں جماعت میں فیل بھی ہوگئی ،تب مجھےدوبارہ اسی کلاس میں پڑھنےکو کہا گیا۔گرچہ چند ماہ بعد پروموٹ کردیا گیا، لیکن مَیں اس صورتِ حال میںڈیپریشن کا شکار ہوگئی۔ بہرکیف، اس کے بعد کسی جماعت میں کبھی فیل نہیں ہوئی اور بالآخر2013ء میں زیبیسٹ یونی ورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری بھی حاصل کرلی۔
س:کتنے بہن بھائی ہیں،آپ کا نمبر کون سا ہے ، آپس میں کیسی دوستی ہے؟
ج:ہم تین بہنیں ہیں، بھائی نہیں ہے۔میرے بعد مریم اور سارہ پیدا ہوئیں۔اُن دونوں کی شادی ہوچُکی ہے۔ہم تینوں ایک دوسرے سے دِل کی سب باتیںشیئر کرتی ہیں، توہماری چھوٹی موٹی لڑائیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔
س:فرماں بردار بیٹی ہیں یا خود سَر اور کس کی زیادہ لاڈلی ہیں؟
ج:فرماں بردار بیٹی ہوں،جس پر والدین کو فخر بھی ہے۔بچپن سے لے کر اب تک ابّوکی بہت لاڈلی ہوں۔ امّی تو اکثر کہتی ہیں کہ ابّا کے لاڈپیارہی نے میری عادتیں خراب کردی ہیں۔
س: آپ کام یاب اداکارہ ہی نہیں،ایک لکھاری،ماڈل اورمیزبان بھی ہیں،تو یہ سب کیسے ممکن ہوا؟
ج:دورانِ تعلیم مَیں نےایک انگریزی اخبار میں ایڈیٹر کے نام ایک مراسلہ صفائی ستھرائی کے موضوع پرلکھا،جب شایع ہوا تو میرا حوصلہ بڑھا۔پھر باقاعدہ طور پر لکھنے لگی، جس کےپیسے بھی ملتے تھے۔بعد ازاں مَیں نے ایک ایڈورٹائزنگ ایجینسی جوائن کرلی ۔ابھی نوکری کرتے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک روزباس نے چند ایسےنازیبا جملے کہے کہ اُسی وقت استعفیٰ دے دیا۔چوں کہ مجھے ماڈلنگ اور اداکاری کا شوق تھا، تو اس کے بعدان دونوں فیلڈز میں قسمت آزمائی اور الحمدللہ کام یاب رہی۔
س: خاندان میں کوئی اور بھی اس فیلڈ سے وابستہ ہے یا پھر یہ اعزاز آپ ہی کے حصّے میں آیا ہے؟
ج: جی نہیں،یہ اعزاز صرف مجھے ہی حاصل ہے۔
س: فیلڈ میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
ج:خواتین چاہے کسی بھی فیلڈ سے وابستہ ہوں، کچھ زیادہ ہی مشکلات برداشت کرتی ہیں۔ابتداء میں میراچند ایسے ڈائریکٹرز سے سامنا ہوا، جو کام سے زیادہ دوسری باتوں پر توجّہ دیتے تھے،صدشُکر کہ آج وہ انڈسٹری میں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔بہر کیف،مَیں نے بھی مشکلات برداشت کیں ،مگر ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے آگے بڑھنے کا سفر جاری رکھا۔
س: پہلی بار کیمرے کا سامنا کیا، تو دِل کی حالت کیا تھی؟
ج: ابتدا میں گھبراہٹ محسوس ہوئی، پھرکیمرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا گُر سیکھ لیا۔
س:آپ نےزیادہ ترمنفی کردار اداکیے ،کیوں اور کیاان کے اثرات آپ کی شخصیت پربھی مرتّب ہوئے یا صرف کردار تک محدود رہے؟
ج:دراصل منفی کردار میں اداکاری کا مارجن نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔یہ مجھے اس لیے پسند ہیں کہ ایک تو یہ مشکل ہوتے ہیں اور دوسراناظرین انھیں تادیر یاد رکھتے ہیں۔ مگرمَیں نہیں سمجھتی کہ ان کرداروں کا میری شخصیت پر کوئی اثر ہوا ہے، کیوں کہ مَیںکیمرے کے سامنےجس روپ میں ہوتی ہوں، اُس کا میری اصل زندگی سے کوئی تعلق نہیں ۔
س:اگر فلموں میں کام کی آفر ہو ،تو؟
ج:اس سے زیادہ خوشی کی کیا بات ہوگی، کیوں کہ فلموں میں کام کرنا میری خواہش ہے اور اگر مجھے آئٹم سونگ بھی کرنا پڑا، تو ضرور کروں گی۔
س:شوبز انڈسٹری کے بارے میں کیا کہیں گی؟
ج:یہ ایک ایسی چمکتی دمکتی دُنیا ہے، جس میں ہر طرح کے لوگ بستے ہیں، اچھے بھی اور بُرے بھی۔تاہم، اب پڑھے لکھے افراد شوبز انڈسٹری میں آرہے ہیں، جس سے انڈسٹری کا امیج بہترہوا ہےاور مَیں سمجھتی ہوں کہ مزید پڑھے لکھے لوگوں کواس طرف آنا چاہیے، تاکہ ایک پروفیشنل ماحول پروان چڑھے۔
س:آپ کی صُبح کب ہوتی ہے؟
ج:عام دِنوں میں دس بجے تک میری صُبح ہوتی ہے، لیکن جس روز شوٹنگ ہو، تو صبح آٹھ بجے ہی اُٹھ جاتی ہوں۔ پہلے جِم جاتی ہوں، پھر وہیں ہی سے شوٹنگ کے لیے روانہ ہوجاتی ہوں۔
س:زندگی کی پہلی کمائی ہاتھ آئی، تو کیا کیا؟
ج: ایک آرٹیکل لکھنے کے تین ہزار روپے ملے تھے،مگر میری خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ حالاں کہ مجھے ہینڈسم پاکٹ منی ملتی تھی، لیکن اپنے ہاتھ کی کمائی کی خوشی الگ ہی ہوتی ہے۔
س:کیا اب بھی والد صاحب سے پاکٹ منی لیتی ہیں؟
ج:نہیں اب مَیں سیلف میڈ ہوں،البتہ عیدی ضرور لیتی ہوں۔ایک بار ابّو نے مجھے5ہزار روپےعیدی دی،تو مَیں نے کہا کہ اس سے تو جوڑا بھی نہیں خرید سکتی، تو پھر اگلی بار عیدی بڑھا دی گئی۔
س:اچھا کما لیتی ہیں، تو کیاگھر پر بھی کچھ دیتی ہیں؟
ج:کوشش تو بہت کرتی ہوں، مگر ہر باروالدین منع کردیتے ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ جب ہم سب کہیں باہر کھاناکھانے جائیں یا شاپنگ کریں، تو بل مَیں ادا کردیتی ہوں۔
س: شاہ خرچ ہیں یا کنجوس؟
ج: کُھلا ہاتھ ہے اور پیسا خرچ کرتے ہوئے بالکل بھی خیال نہیں رہتا کہ کتنے خرچ کردیئے۔
س:سُنا ہے کہ آپ شاپنگ کے لیے بیرونِ مُلک جاتی ہیں؟
ج:پاکستان میں ہر چیز مہنگی ہے،بس پیسا بچانے کی خاطر زیادہ تر امریکا سے شاپنگ کرتی ہوں اور سال بھر کے کپڑے لتّے ایک ساتھ خرید لیتی ہوں۔
س:آپ کی بہنیں پیا گھر سدھار چُکی ہیں، آپ کے کب تک ارادے ہیں؟
س:امّی شادی کے لیے کہتی رہتی ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس سے شادی کرنا چاہتی ہوں، اُسے مَیں پسند نہیں اور جو مجھ سے شادی کرنے کاخواہش مند ہے،وہ مجھے پسند نہیں۔دیکھیں ،اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
س: اگرپسند کی شادی نہ ہوئی ،توپھر آپ کا انتخاب کیا ہوگا ؟
ج:بس اچھا انسان ہو اور اگر امیر بھی ہو، تو کیا ہی بات ہے۔میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اُس کے پاس بہت پیسا ہو، لیکن اتنا ضرور ہو کہ ضروریاتِ زندگی پوری ہوسکیں۔
س: مزاج میں سنجیدگی کا عُنصرغالب ہے یا غصّے کا؟
ج:بچپن ہی سے طبیعت میں غصّے کا عنصرشامل رہاہے ۔ کوئی غلط بات تو برداشت کر ہی نہیںسکتی، فوراً مُنہ توڑ جواب دے دیتی ہوں۔شاید اسی لیے انڈسٹری میں لوگ مجھےبدتمیز کہتے ہیں۔
س:فارغ اوقات کے کیا مشاغل ہیں؟
ج: گھر میں پالتوپرندے اور جانور ہیں، تو جب بھی فرصت ملتی ہے، ان کے ساتھ وقت گزار تی ہوں۔
س: کیا سوچ کر خوف محسوس ہوتا ہے؟
ج:مَیں اُن لوگوں میں سے ایک ہوں، جو ناکام ہونے سےڈرتے ہیں۔
س: کھانا پکانے کا شوق ہے یا صرف کھانے کا؟
ج: دونوں ہی کا شوق ہے اورمیرے ہاتھ میں ذائقہ بھی بہت ہے،بریانی ، تھائیز ، چائنیز اور پیزا مزے داربنا لیتی ہوں ۔
س:اپنےدِل کی تیز دھڑکن سُنائی دیتی ہے، آخری بار کب سُنی تھی؟
ج:جب پہلی بار ریمپ پر واک کی،تب لگ رہا تھا کہ دِل اُچھل کر باہر آجائے گا۔رہی بات آخری بار سُننے کی، تو ابھی پچھلے ہی دِنوں مجھے ایک لڑکے نے پروپوز کیا، تودِل بہت زور سے دھڑکا تھا۔
س:دوستی کے معاملے میں کیسی ہیں،نبھاتی ہیں یا پھر راستے ہی میں ساتھ چھوڑ دیتی ہیں؟
ج:اس معاملے میں بدنصیب ہوںکہ میری کوئی دوست نہیں ۔شاید اس لیے کہ مجھ سےمنافقت برداشت نہیں ہوتی ۔
س: تنہائی پسند ہیں یا ہجوم میں گھِرے رہنا اچھا لگتا ہے؟
ج: مجھے تنہا رہنا اچھا لگتا ہے۔
س:کس سنیئر اداکار اور اداکارہ سے متاثر ہیں؟
ج: صنم سعید اور فوّاد خان کمال کی اداکاری کرتے ہیں۔ دونوں ہی کے دبنگ انداز سے متاثر ہوں۔ فوّاد خان نے اپنے ساتھ ایک بار تصویر کھنچوانے کا موقع دیا ،تو اسی بہانے ملاقات ہوگئی، البتہ صنم سعید سے ملنے کی آرزو ہے۔
س:شاپنگ یا پھر کسی اور کام کے لیے گھر سے نکلتی ہیں، تو کیا لوگ پہچان لیتے ہیں؟
ج:جی بالکل پہچان لیتے ہیں اور تعریفوں کے پُل باندھنے کےبعد سیلفی لینے کی فرمایش بھی کرتےہیں۔
س:سیاست دانوں میں کون پسند ہے؟
ج: شہید بے نظیر بھٹو، پرویز مشّرف اور اعتزازاحسن۔
س:موسم اور رنگ کون سا بھاتا ہے؟
ج: کالا اورپیلا رنگ بے حد پسند ہے۔میری وارڈ روب میں زیادہ تران دونوں رنگوں ہی کے کامبی نیشن میں ڈھیروں ملبوسات ہیں۔
س:موسم کون سا بھاتا ہے؟
ج:ویسےمجھے معتدل موسم پسند ہے، مگر کام کی نوعیت کے اعتبار سے سرما بھاتا ہے، کیوں کہ میک اپ خراب نہیں ہوتا اور پھر اے سی کے بغیر رہا بھی جاسکتا ہے۔
س:پسندیدہ جگہ کون سی ہے؟
ج:ایک تواپنا آبائی شہر،کراچی اور دوسرا زندہ دِلوں کا شہر، لاہور، بیرونِ مُمالک میں صرف لندن پسند ہے۔
س:آپ کی نظر میں محبّت کیا ہے؟
ج: مَیں سمجھتی ہوں کہ محبّت خوشیاں بانٹنے کا نام ہے۔
س:گھر سے نکلتے ہوئے، کون سی تین چیزیں لازماً ساتھ ہوتی ہیں؟
ج:تین نہیں،چار چیزیں لازماً ساتھ ہوتی ہیں، کچھ کیش، موبائل فون ،چارجر اور انٹرنیٹ ڈیوائس۔
س: اگر آپ کے پرس کی تلاشی لی جائے تو…؟
ج:گھر کی چابیاں، پرفیوم، جراثیم کُش لوشن،جیولری،اے ٹی ایم کارڈز،شاپنگ کی رسیدیں اور بہت کچھ برآمد ہوگا۔
س:زندگی سے کیا سیکھا؟
ج:یہی کہ پیسے سے بہت کچھ خریدا جاسکتا ہے،لیکن اپنے لیے خوشیاں نہیں خریدی جاسکتیں،اس لیے ہمیشہ لوگوں میںخوشیاں اور خیر بانٹیں۔
س:آپ نے اپنےسوشل میڈیا پروفائل میں خود کو اداکارہ، لکھاری، اینیمل ایکٹی ویسٹ (Animal Activist) اور فیمینیسٹ (feminist)کے طور پر متعارف کروایاہے،اداکارہ اور لکھاری کا رُوپ تو ہم دیکھ چُکے ، باقی کام کب کرتی ہیں؟
ج: ہر انسان کی شخصیت کے مختلف روپ ہوتے ہیں اور میرے بھی ہیں،جن کا اظہارپروفائل میں کیا ہے۔جیسےمَیں ایک اداکارہ ہوں،یہ میرا پیشہ ہے۔ مختلف اداروں کے لیے لکھتی رہی،تو اس لحاظ سے لکھاری ہوگئی۔ رہی بات فیمنیسٹ کی، تو اصل میں فیمنی ازم(feminism)ایک نقطۂ نظر ہے اور مجھے جب بھی ،جہاں بھی موقع ملتا ہے،حقوقِ نسواںکے حوالے سے اپنی آواز بُلند کرتی ہوں اور کرتی رہوں گی۔ پرندوں اور جانوروں کے حقوق کی علم بردار ہونے کے ناتے اینیمل ایکٹی ویسٹ بھی ہوں۔
س: گزشتہ برس کیا کھویا ، کیا پایا اور2019ءمیں کیا کرنے کا ارادہ ہے؟
ج: 2018ء میں کچھ دوستوں کو کھو دیا۔شاید ان کی مجھ سے توقعات کچھ زیادہ تھیں،جنہیں مَیں پورا نہیں کرسکی۔پھراپناوزن کم کیا، جو میرے لیے اچھاتھا۔ 2019ء میں میری کوشش ہے کہ سالِ رفتہ میں جو کوتاہیاں ،کمیاں رہ گئی ہیں،اُن پرتوجّہ دوں اور جہاں تک ممکن ہو ،فلاحی امور انجام دوں۔
س:پرستاروں کے لیے کوئی پیغام؟
ج:یہ دُنیا آج آپ کی ہے، تو کل کسی اور کی،لہٰذا جب تک یہاں قیام ہے، اپنی زندگی مثالی بنائیں، تاکہ لوگ آپ سے ملنے کی تمنّا کریں اور آپ کے مَرجانے کے بعد اچھے الفاظ میں یاد رکھیں۔