نیو کاسل (نمائندہ جنگ) سانحہ ساہیوال نے جہاں پورے پاکستان کو رلایا وہیں یو کے اوورسیز کمیونٹی بھی اس غم میں نڈھال ہے، نیو کاسل سینئر جرنلسٹ و ڈرامہ رائٹر کرسچن پریس کلب یوکے کے صدر سیمسن جاوید کی سربراہی میں ہنگامی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں صحافی جاوید بھٹی، انیتا جاوید، پاسٹر حنوک یعقوب، ڈاکٹر آنند، صنم ممتاز، گریس جاوید اور سینئر جرنلسٹ ورائٹی تہمینہ رانا شامل ہوئے جبکہ ریڈنگ سے میاں سلیم صدر پی پی گریٹر لندن، مشتاق لاشاری، سیج بٹ لندن، عقیلہ داؤد و روبی عاشر، طلعت گل ‘‘سلاو‘‘ شاہ بانو، عزمان سندھو، نصر چوہدری‘ ہائی ویکمب‘ مقدسہ بانو‘ مانچسٹر‘ میئر انصر حسین اور ڈاکٹر جیمز شیرا نے رگبی سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے اس واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا کہ سی ٹی ڈی کی اس کارروائی میں نہتے شہریوں کا ان کے بچوں کے سامنے مارے جانا تو ظلم ہے ہی مگر اس سے بڑا ظلم ریاستی وزیروں کامتضاد موقف ہے جس میں ایک طرف تو وہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی جبکہ دوسری طرف دہشت گردی کا لیبل لگاتے نظر آتے ہیں، سیمسن جاوید نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کو اپنا کردار بطور ماں ادا کرنا چاہئے نا کہ سی ٹی ڈی اور دیگر محرکات کی پشت پناہی بھلے ان کا تعلق کسی بھی ادارے سے کیوں نہ ہو کیونکہ اداروں کا مقصد عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے ناکہ محض افواہوں کی بنیاد پر بے گناہ شہریوں کا قتل اور پھر اپنے جرم پر یہ کہہ کر پردہ پوشی کرنا کہ مرنے والے دہشت گردوں کا تعلق داعش سے تھا، میاں سلیم صدر گریٹر لندن نے کہا کہ سی ٹی ڈی نے کئی مرتبہ اپنی رپورٹ بدل کر پوری دنیا کے سامنے اس ادارے کی شفافیت کا پول کھول دیا، مشتاق لاشاری نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد کبھی بچوں کے ہمراہ سفر نہیں کرتے اور نہ ہی وہ گاڑی روک کر جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں صحافی جاوید بھٹی نے کہا کہ پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے آرمی پبلک سکول حملے میں دہشت گردوں نے بچوں کو مارا جبکہ سانحہ ساہیوال میں وطن کے محافظوں نے تیرہ سالہ بچی کو بھون ڈالا، پاسٹر حنوک یعقوب نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آخر ایسا کونسا جرم ثابت ہوگیا تھا کہ معصوم و بے گناہ تیرہ سالہ اریبہ کو بھی چھ گولیاں مار کر درندگی و دہشت کی بھیانک مثال رقم کی گئی، نصر چوہدری نے اس قبیح فعل کو پاکستانی بچوں کے حقوق اور مستقبل کے لئے سخت تشویشناک عمل قرار دیا جبکہ شاہ بانو اور عزمان سندھو نے کہا کہ تبدیلی سرکار کا اصل امتحان تو اب شروع ہوا ہے کہ وہ اپنی اور ادارے کی غلطی ماننے سمیت ایسے واقعات کے روک تھام کے لئے آئندہ کیا لائحہ عمل طے کرتی ہے عقیلہ داؤد نے کہا کہ اشک رکیں تو کچھ کہوں یہ سانحہ ہے ہی اتنا تکلیف دہ، میئر انصر حسین نے کہا کہ عمران خان کو اب پولیس کے فرسودہ نظام میں اصلاحات کرنا ہی ہوں گی وگرنہ ایسے واقعات سے پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوتی رہے گی، ڈاکٹر جیمز شیرا نے کہا کہ یہاں یو کے اور یورپ میں ہر ایک کے حقوق ہیں جبکہ بچوں کے حقوق کو اولین ترجیح دی جاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ سی ٹی ڈی کو ان معصوم بچوں پر بھی رحم نہیں آیا، تہمینہ رانا نے کہا کہ سمجھ نہیں آتا کہ سی ٹی ڈی جیسے حساس ادارے کے انفارمرز کی اطلاعات اس قدر غیر مصدقہ اور بے بنیاد ہوسکتی ہیں کہ انہوں نے بنا تصدیق کے اس ماورائے عدالت قتل کے آرڈر جاری کردئیے اور مارنے والوں نے معصوم بچوں کے ہوتے ہوئے گاڑی روک کر نہ تو تصدیق کی نہ ہی اپنے اعلیٰ حکام کو بتایا کہ موجودہ صورتحال کیا ہے تاکہ رحم کی کوئی گنجائش ہی نکل سکتی مگر آرڈر جاری کرنیوالے بھی چنگیز خان اور مارنے والے بھی ہلاکو خان تھے سو ایسا بہیمانہ کھیل سرعام کھیلا گیا کہ سڑک کے دونوں اطراف کی عوام اس جرم کے خلاف گواہ بن گئے بدقسمتی سے حکومتی جے آئی ٹی کے کٹھ پتلی اراکین نے گواہوں کو بلایا تو سب نے انکار کرتے ہوئے جائے واردات پرشہادتیں قلمبند کروانے کا عندیہ دیا، کیسی عجیب بات ہے کہ چوہدری فواد، راجہ بشارت، چوہدری سرور اور فیاض چوہان جیسے لوگ حکومت کا حصہ ہیں جو اپنی حکومت کی نااہلی کسی طور تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں جبکہ دوسری طرف پیٹی بھائیوں نے کیس کو کمزور کرنے کے لئے روایتی ہتھکنڈے اپنانے شروع کردئیے ہیں یعنی دو ایف آئی آر کاٹ کر کیس کو کمزور بنایا جارہا ہے یاد رہے ماضی میں سانحہ یوحنا آباد کے کیس میں بھی پولیس پارٹی بنی اور دو ایف آئی آر کاٹیں، سانحہ ماڈل ٹاون میں بھی تاحال پولیس بیانات قلمبند کروانے کے ملوث ملزمان باوجود بری الذمہ ہیں سو یہ ثابت کرتا ہے جیسے قاتل راو انوار کو پیٹی بھائیوں کی تاحال حمایت حاصل ہے اسی طرح سی ٹی ڈی کو حکومتی سرپرستی، دیکھنا یہ ہے کہ کیا پھر عوام کو جے آئی ٹی کا چکمہ دے کر کب تک بیوقوف بنائیں گے اب جبکہ بچوں کے بیانات اور ذیشان کے متعلق کلیئرنس بھی واضح ثبوتوں کے طور پر موجود ہے سو بہتر ہوگا کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور انصاف کے تقاضے پورا کرتے ہوئے بچوں اور ذیشان کی بوڑھی ماں کو انصاف دے وگرنہ رب کی عدالت کے ہاں تو کبھی کسی سے ناانصافی نہیں ہوئی آخر میں تمام شہدا کے لئے دعائے مغفرت اور بچوں کی جلد صحت یابی سمیت دیگر تمام جملہ لواحقین کے لئے صبر کی دعا کے ساتھ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔