• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سید علی جیلانی…سوئٹزرلینڈ
نیا سال کبھی کسی کے لئے خوشی لے کر آتا ہے کبھی غم۔ کبھی کسی گھر میں موت ہو جاتی ہے کبھی کسی کے یہاں بچہ پیدا ہوتا ہے کسی کی شادی ہوتی ہے اور کسی کو نئی نوکری مل جاتی ہے کسی کو ترقی مل جاتی ہے اور کسی کو کاروبار میں فائدہ ہو جاتا ہے خیر یہ اتار چڑھائو آتا رہتا ہے، اب کیا پتہ تھا کہ خلیل نامی شخص اپنی فیملی کے ساتھ لاہور سے بورے والا شادی میں جاتے ہوئے ساہیوال میں سی ٹی ڈی کی فائرنگ کا نشانہ بن جائے گا، اس واقعہ میں3چھوٹے بچوں کے سامنے ماں، باپ، بہن اور ڈرائیور کو قتل کر دیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق کار سواروں نے کوئی مزاحمت نہیں کی نہ پولیس نے گاڑی روکی سیدھی فائرنگ کر دی بچہ نے بتایا کہ ابو نے کہا کہ پہسے لے لو ہمیں نہ مارو لیکن پولیس نے ایک نہ سنی، یہ واقعہ نئے سال کا ایک افسوس ناک واقہ ہے، اب کسی کو کیا پتہ تھا کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نئے سال کے مہینے اپنے محل میں گزارنے کے بجائے جیل میں گزاریں گے کبھی زندگی میں بھی میاں نواز شریف نے یہ سوچا نہیں تھا کہ کبھی کوئی جج اور افسران ان کے خلاف جائیں گے، انہوں نے سوچا تھا کہ ہمیشہ حکمرانی کریں گے اور بعد میں ان کے خاندان کے لوگ حکمرانی کرتے رہیں گے لیکن خدا کچھ اور منظور تھا اور عمران خان کو حکومت مل گئی، نئے سال میں دھمکیاں بڑی لگائی جا رہی ہیں، مثلاً بلاول زرداری نے کہا کہ ’’ابا جان اجازت دے دیں تو ایک ہفتے میں عمران خان کی حکومت گرا دیں‘‘۔ دوسری طرف سے فواد چوہدری بولے اگر عمران خان اجازت دیں تو سندھ حکومت گرا دیں، اس بات پر بڑا اچھا لطیفہ یاد آ گیا۔ دو بچے آپس میں لڑ رہے تھے ایک نے کہا میں تمہیں مکا ماروں گا تو تم لاہور پہنچ جائو گے۔ دوسرے بچے نے کہا اگر میں نے مکا مارا تو تم کراچی پہنچ جائو گے۔ ادھر سے راہگیر گزر رہا تھا اس نے بچوں سے کہا مجھے اسلام آباد جانا ہے مجھے ایک مکا مار دو۔ دوسری طرف دوسری بڑی پارٹی کے سربراہ آصف زرداری کے لئے بھی اس نئے سال میں کافی پریشانیاں ہیں کیونکہ جعلی اکائونٹ کیس میں وہ اور ان کی بہن فریال تالپور پر منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں اور جے آئی ٹی نے ان کے خلاف کافی ثبوت اکھٹے کئے ہیں اور سپریم کورٹ نے نیب کو کہا کہ ریفرنس دائر کریں، لوگوں کو نیب سے زیادہ زمید تو نہیں ہے کیونکہ نیب کی تاریخ ہے جس میں بڑے بڑے مقدمات کو نیب نے اپنے دوستانہ استغاثہ کی وجہ سے ختم کروا لیا جس کا سب سے زیادہ فائدہ زرداری کو ہی پہنچایا گیا، تمام جماعتیں نیب سے مطمئن نہیں ہیں لیکن اس ادارے کو بہتر بنانے کے لئے پارلیمنٹ میں کچھ کرنے سے گریزاں ہیں۔ نئے سال میں کافی سیاسی محبتیں شروع ہوگئیں ہیں عوام کو تو پتہ ہوگا کہ انتخابات کے دوران شہباز شریف اور آصف زرداری ایک دوسرے کی شان بیان کرتے تھے سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑنے کی بات ہوا کرتی تھی لیکن جب نئے سال میں دونوں پارٹیوں پر مصیبت آئی تو دونوں لیڈروں میں محبتیں جاگنے لگیں، آصف زرداری صاحب اسمبلی میں داخل ہوئے سامنے شہباز شریف کو دیکھا تو جھک کر پرجوش مصافحہ کیا عوام کو پتہ ہے کہ اسی کا نام سیاست ہے۔ تحریک انصاف کے لئے 2018خوشی کا سال تھا کیونکہ انہوں نے طویل جدوجہد کے بعد الیکشن میں کامیابی حاصل کی اور وزیراعظ بنے۔ عمران خان، اب وعدے اتنے تحریک انصاف نے کے کئے ہیں جو ابھی چار پانچ ماہ میں ان کے پورے ہونے کے اشارے بھی نہیں نظر آ رہے، تحریک انصاف نے وعدہ کیا تھا کہ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے اور50لاکھ گھر تعمیر کریں گے لیکن اب نئے سال میں ہم داخل ہوگئے ہیں اور مختلف شعبوں میں سے لوگوں کو نوکری سے نکال دیا گیا کاروباری لوگ شکایت کرتے ہیں کہ کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں، حکومت نے روپے کی قیمت تاریخی کمی کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف اقدامات کئے لیکن نہ ملکی معیشت کی بہتری کے آثار مل رہے ہیں نہ سرمایہ کاری، ٹیکس وصولی اور برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے، پاکستان کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے اربوں ڈالر ملنے کے وعدے کے باوجود ملکی معیشت اور کاروباری حالات بہتر نہیں ہو رہے۔ اصل میں تحریک انصاف اس وقت محاذ آرائی کی جانب رواں دواں ہے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو لیکن پاکستان میں شروع سے ایسا قانون ہے کہ بڑے لوگوں، بڑے سیاسی لیڈروں پر آپ ہاتھ نہیں ڈال سکتے، جتنے بھی انہوں نے جرائم، منی لانڈرنگ یا قومی دولت لوٹی ہو ہماری عدالتیں بے بس ہیں۔ ثاقب نثار نے بڑی جرأت دکھائی اور ان قوتوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہے اور ملک کے وزیراعظم میاں نواز شریف اور شہباز شریف، آصف زرداری کے خلاف ان کے دور میں ہی ریفرنس دائر ہوئے اور سزائیں ہوئیں۔2019میں ہمیں پاکستان کے لئے کچھ کرنا ہے جو تلخیاں2018میں ہوئیں یا جو ہمیں غم اٹھانے پڑے ان سب کو بھول کر خوشی کے راستے تلاش کرنے ہوں گے اور پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوگا، جن کاروباری حضرات کو2018میں غم لے یا بددل ہوئے اور اپنے کاروبار دبئی، ملائیشیا، بنگلہ دیش میں منتقل کئے ان کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے اور پاکستان میں امن کی فضا قائم کرکے ان کو پاکستان میں کاروبار کرنے کا موقع فراہم کیا جائے اور اس بات کا یقین دلایا جائے کہ آپ منافع کے ساتھ ساتھ کاروبار کو بھی وسیع کرسکتے ہیں، قانون سازئ کے لئے اور آئین میں ترامیم کرنے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کو ایک ہو کر بیٹھنا ہوگا احتساب کا عمل تیز ہونا چاہئے، لیکن سارے کرپٹ لوگوں کا جو حکومتی بنچوں پر ہون یا اپوزیشن بنچوں پر۔ وزیراعظم کو اپنے ایجنڈے پر توجہ مرکوز رکھنی ہے اور وزیروں کے جارحانہ عمل کو روکنا ہوگا اور یوٹرن اور تنازعات سے بچنا ہوگا۔ یاد رکھیں کہ دوست ممالک جو مدد کر رہے ہیں معاشی استحکام کے لئے وہ بار بار نہیں کریں گے ایسا نہ ہو کہ جو خوشی آج ہے وہ کل غم میں نہ بدل جائے۔
تازہ ترین