• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ربا اور سود حرام ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے بہت سے اعتراضات کیے اور دلائل دیئے جاتے ہیں جن کا تشفی بخش جواب بھی دیا جا چکا ہے۔1991ء میں جب سود کے متعلق وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ صادر کیا تو اس کے خلاف مختلف بینک اور تمویلی اداروں نے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ میں دعویٰ دائر کیا۔ سپریم کورٹ کے اس شریعت اپیلٹ بنچ میں جسٹس خلیل الرحمان خان، جسٹس منیر اے شیخ، جسٹس وجیہ الدین اور جسٹس مولانا مفتی تقی عثمانی شامل تھے۔ اس بنچ نے ان اپیلوں کی سماعت مارچ 1999ء میں شروع کی۔عدالت میں خطاب کرنے والے ان ماہرین میں علمائے کرام، بینکار، قانون دان، معیشت دان، تاجر اور چارٹرڈ اکائونٹنٹ وغیرہ بھی شامل تھے۔ مقدمہ کی سماعت جولائی 1999ء کے آخر تک جاری رہی اور پھر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ 23دسمبر 1999ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپیلٹ بنچ نے اپنا تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے سود کو غیر قانونی اور اسلامی احکامات کے منافی قرار دیا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ تقریباً 1100صفحات پر مشتمل تھا۔ احباب کے ذکر کردہ خلجان اس فیصلہ میں بعینہٖ موجود ہیں اور دلائل و براہین کے ساتھ ان کا جواب بھی وہاں سپردِ قرطاس کیا گیا ہے۔

کتابِ مقدس میں جس چیز کو لفظِ ’’الربا‘‘ سے حرام قرار دیا گیا ہے، اردو میں اس کا ترجمہ ’’سود‘‘ کیا جاتا ہے۔ اس سے عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں سود کی معروف صورت ہی ’’ربا‘‘ ہے، لیکن ’’ربا‘‘ صرف اسی مفہوم کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ ایک وسیع مصداق و مفہوم رکھتی ہے، جس میں سود کی معروف صورت ’’متعین پیسہ متعین مدت کے لیے دے کر متعین شرح کے ساتھ نفع لینا‘‘ بھی شامل ہے۔ نیز اس میں خرید و فروخت کے دیگر کثیر معاملات بھی داخل ہیں، چنانچہ ابن العربیؒ تحریر فرماتے ہیں:اصطلاحِ شریعت میں ربا ایسی زیادتی کو کہا جاتا ہے جو بغیر کسی مالی معاوضہ کے حاصل کی جائے۔ (احکام القرآن) اس میں وہ زیادتی بھی داخل ہے جو رقم ادھار دینے پر حاصل کی جائے کیونکہ مال کے معاوضہ میں تو راس المال پورا مل جاتا ہے اور جو زیادتی ’’سود‘‘ یا ’’انٹرسٹ‘‘ کے نام سے وصول کی جاتی ہے وہ بے معاوضہ ہے۔ اس طرح بیع و شراکی شخصی، صرفی، جماعتی، تجارتی اور وہ تمام صورتیں بھی اس میں داخل ہو گئیں جو بلا معاوضہ وقوع پذیر ہوں۔ نبی کریمﷺ نےبھی ربا کی معروف و مروج صورت سے ہٹ کر دیگر غیر معروف صورت کو بھی بیان فرمایا ہے، چناچہ ارشادِ نبوی ہے ’’اگر سونا سونے کے بدلے چاندی‘ چاندی کے بدلے گندم‘ گندم کے بدلے جو‘ جو کے بدلے چھوارا‘ چھوارے کے بدلے اور نمک‘ نمک کے بدلے لیا یا دیا جائے تو برابر برابر اور دست بدست ہونا چاہئے۔ اس میں کمی بیشی یا ادھار ’’ربا‘‘ کے حکم میں ہے اور اس کے گناہ میں لینے اور دینے والے دونوں برابر ہیں‘‘۔ اس حدیث سے ایک نئی قسم کا ’’ربا‘‘ میں داخل ہونا عیاں ہوتا ہے کہ مذکورہ چھ چیزوں کا باہمی تبادلہ اور بیع کی جائے تو اس میں کمی بیشی کرنا بھی ’’ربا‘‘ ہے اور ادھار کرنا بھی ’’ربا‘‘ ہے، خواہ اس ادھار کی مقدار میں کوئی زیادتی نہ ہو بلکہ برابر لیا دیا جائے۔ چونکہ ربا کا مشہور اور متعارف مفہوم قرض دے کر اس پر نفع لینا تھا، جسے سب صحابہ کرامؓ چھوڑ چکے تھے لیکن مذکورہ حدیث میں بیان کردہ مفہوم صحابہ کرامؓ کو اس سے پہلے معلوم نہ تھا، نبی کریمﷺ نے اس کی توضیح فرما دی۔ قرآن مجید میں ربا کی مخالفت کا ذکر مختلف سورتوں کی سات، آٹھ آیتوں میں وارد ہوا ہے۔ ان تمام آیات میں کسی ایک جگہ بھی صراحتاً یا کنایتاً ربا کی کسی صورت کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا، پھر کسی کو یہ کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم میں سے کسی چیز کو محض اپنے خیال سے مستثنیٰ کر دے؟ یا عام ارشاد کو خاص کر دے؟ یا مطلق کو بلا دلیلِ شرعی مقید و محدود کر دے؟ یہ تو کھلی تحریف ہے۔ اگر خدا نخواستہ اس جسارت کا دروازہ کھول دیا جائے تو پھر بہت سی دیگر برائیوں کے بارے میں بھی قیاس کا در کھل جائے گا۔ اس لیے سادہ سی بات ہے کہ سود و ربا یعنی قرض پر نفع لینا خواہ قدیم طرز کا مہاجنی سود ہو یا نئی قسم کا تجارتی اور بینکوں کا، بہرصورت حرام ہے۔ کتب ِتفاسیر و تواریخ میں بیشتر واقعات دستیاب ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ تجارتی سود بھی عہدِ نبوی میں رائج تھا، جسے قرآن و حدیث کے ذریعے ممنوع قرار دیا گیا چناچہ عمدۃ القاری شرح بخاری میں حضرت زید بن ارقمؓ سے آیتِ ربا کے شانِ نزول میں قبیلہ بنو ثقیف کے خاندان بنی عمرو بن عمیر اور قبیلہ بنو مخزوم کے ایک خاندان کا واقعہ درج ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حرمتِ ربا نازل ہونے سے پہلے جو سود لیا جا چکا ہے وہ معاف ہے لیکن اب اس کا لینا دینا حرام ہے۔ اس واقعہ سے بدیہی طور پر یہ معمہ واضح ہو چکا ہے۔

تازہ ترین